لاہور (فاخر ملک) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) آج ہونے والے اجلاس میں حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کا فیصلہ کرنے جارہی ہے جس کے مطابق ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے نئے سرے سے تحریک چلائی جائے گی۔ ان مذہبی جماعتوں میںتحریک لبیک سمیت دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں کوبھی شامل کیا جا رہا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ابھی ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ پی ڈی ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو بھی اس تحریک میں شامل کیا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے ذرائع کے مطابق حکومت شریعت اور آئین سے متصادم قانون سازی کر کے اس ایجنڈا پر کاربند ہے جس کا مقصد مرحلہ وار پاکستان کا اسلامی تشخص ختم کرکے اسے ایک لادینی یا سیکولر ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ پی ڈی ایم کے آٹھ جماعتی سربراہی اجلاس میں اس تحریک کے علاوہ ملک کی داخلی اور خارجی صورتحال کو زیر بحث لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ حال ہی میں سینٹ میں گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ کا بل کثرت رائے سے منظورکیا گیا ہے۔ بل خواتین، بچوں، بزرگوں اورکمزور افراد کے خلاف گھریلو تشدد کی ممانعت اور ان کے تحفظ سے متعلق ہے۔ بل کے مطابق گھریلو تشدد کرنے والے کو 3 سال تک قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید 3 سال سزا ہوگی۔ عدالت میں درخواست آنے کے 7 روز کے اندر سماعت ہوگی اور فیصلہ 9 روز میں ہوگا۔ متاثرہ شخص کو مشترکہ رہائش گاہ میں رہنے کا حق حاصل ہوگا یا جوابدہ رہائش کا بندوبست کریگا یا شیلٹر ہوم مہیا کیا جائے گا۔ تشدد کرنے والے شخص کو متاثرہ شخص سے دور رہنے کے احکامات بھی دیئے جائیں گے۔ ان کے مطابق بل میں کہا گیا ہے کہ طلاق اور دوسری شادی کا خطرہ ہو، طلاق آدمی کا حق ہے، خلع عورت کا اور دوسری شادی مرد کا حق ہے۔ جبکہ دین اسلام اور قانون اور سنت کو پس پشت ڈال کر معاشرہ اور خاندان کا نقصان کیا جا رہا ہے اگر بیوی کہہ دے کہ شوہر نے ڈانٹا، خرچہ نہیں دیتا تو کل وہ عدالت میں آمنے سامنے ہوں گے۔ ڈومیسٹک وائلنس (پریوینشن اینڈ پروٹیکشن) بل کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر ہو گا جبکہ دوسرے صوبے اس قسم کے قوانین پہلے ہی بنا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بل میں ایک اور اچھی بات یہ بھی ہے کہ میاں بیوی بغیر اجازت ایک دوسرے کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح موجودہ نظام میں نوے فیصد افراد اپنی بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے جبکہ یورپ میں والدین کی میراث میں بیٹے اور بیٹی کا حصہ برابر ہوتا ہے۔ جبکہ شادی کے بعد بنائی گئی جائیداد کے مالک بھی شوہر اور بیوی یکساں ہوتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں سب نصف نصف بٹ جاتا ہے۔ یورپ کے خاندانی نظام میں بھی بہت ساری خامیاں ہیں اور ہمارے نظام میں بہت ساری اچھی باتیں بھی ہیں لیکن یہ بل خاندانی نظام کے ہرگز خلاف نہیں ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک بہت اچھا بل ہے اگر یہ قانون بن جاتا ہے۔ ایک عام غریب دیہاتی عورت کو شاید کبھی اس کا علم نہ ہو اور اس پر سب ظلم ویسے ہی ہوتا رہے۔
پی ڈی ایم آج نیا محاز کھولنے کا فیصلہ کریگی ، زسر نو تحریک چلے گی
Aug 11, 2021