ہندوؤں اور سکھوں کی تلواروں کا مقابلہ مرچوں کے سپرے سے کیا : بشیراں بی بی

ملتان (ظفر اقبال سے) تحریک پاکستان جب عروج پر تھی میری عمر 13 سال تھی۔ قائداعظم کی تقریر ریڈیو پر بھی سنتے تو رگوں میں خون دوڑتا ہوا محسوس ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار قیام پاکستان کے وقت ضلع فیروز پور گاؤں پپلی سے ہجرت کر کے آنے والی بشیراں بی بی نے ’’نوائے وقت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ تحریک پاکستان نے جب زور پکڑا تو انگریز اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو بہت ستایا۔ شاید ہی کوئی گھرانہ انگریزوں اور ہندوؤں کے ظلم سے محفوظ رہا ہو‘ ماں باپ اپنی جوان بیٹیوں کی حفاظت کے لئے رات کو ٹھیکری پہرہ دیتے تھے۔ جب  قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو والد نے گاؤں کے نمبردار کے کہنے کے مطابق اپنے اپنے خاندان کے ساتھ باری باری گاؤں سے نکلنے کا پروگرام بنایا ہم سب بیل گاڑیوں پر سوار تھے اورآہستہ آہستہ قافلہ آگے بڑھ رہا تھا بھی فیروز پور سے ہم نکلے ہی تھے کہ ہندوؤں اور سکھوں کے نوجوان لڑکے حملہ آور ہوئے ان کے حملے کا توڑہمارے بزرگوں نے کیا ہمارے پاس ڈنڈے سوٹے تو نہ تھے نہ ہی تلواریں تھیں لیکن ان کے ہولی میں پٹاخہ توپیں جس سے رنگ ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں انہی میں مرچیں پانی میں ڈال کر بھری ہوئی تھیں جو ہر نوجوان اور بزرگ کے ہاتھ میں تھیں جیسے ہی ہندو حملہ آور  بڑھے سب نے پٹاخہ توپیں کھول دیں سب ڈھیر ہو گئے بس ان کی چیخیں تھیں اور شور تھا تب  چلتے گڈوں سے مسلمانوں نوجوان لڑکوں نے چھلانگیں لگا کر ہندوؤں اور سکھ لڑکوں کے ہاتھوں سے تلواریں اور ڈنڈے چھین لئے کیونکہ وہ غم و غصہ سے اپنے ہی ساتھیوں کو نقصان پہنچانے لگے تھے اس کے بعد خدا کا شکر ہے کوئی حملہ نہ ہوا اور ہم چین سے وطن پاکستان پہنچ گئے۔

ای پیپر دی نیشن