قائدؒ کا پاکستان اور سماجی انصاف کا سفر 

ایک ہاتھ میں اپنے ملک کا پرچم تھامے اور دوسرے ہاتھ میں ٹرالی بیگ تھامے 32سالہ جوان سڑک پر بارش کے باوجودپیدل جارہا تھا ، یہ شخص سفر کرتے یکم اگست کو عدالت عظمیٰ تک پہنچا تاکہ سماجی طور پر اس کے ساتھ ہونے والی ذیادتی کے لیے انصاف حاصل کر سکے ۔ یہ خبر بی بی سی اردو پر موجود ہے ، تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اترپردیش کے گائوں میں رہنے والے پروین کمار پیشے کے لحاظ سے استاد تھے ڈپریشن کا شکار ہوکر بغیر بتائے دلی میں واقعہ ایک اسلامک سنٹر پہنچے جہاں قرآن کریم سمیت ہندو وید کی کتابوں کا دو روز مطالعہ کرتے رہے ۔یہاں ان کی ملاقات اسلامک سنٹر کے منتظم عمر گوتم اور جہانگیر عالم سے ہوئی جس کے بعد وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں ان کا نام عبدالصمد رکھا جاتا ہے ۔ عبدالصمد ایک سخت گیر قسم کے قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر ، مصنف اور استاد بھی ہیں ۔وزیراعظم نریندرا مودی اورانتہا پسند ادتیہ ناتھ جوگی پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔پروین کمار نومبر 2019کو اپنے گھر سے نکلے اور جنوری 2020کو عبدالصمد بن کر واپس آتے ہیں مسلمان ہونے کی خبر والدین اور رشتہ داروں تک پہنچی تو انہوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ۔اس کے بعد بھارتی محکمہ انسداد دہشت گردی نے عبدالصمد کو طلب کیا ۔21جون سے 29جون تک محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکار ان سے بیرون ملک فنڈنگ، دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے اور جبری اسلام قبول کرنے کے متعلق سوالات کرتے رہے تفتیش کے بعد کلین چٹ دے کر اسے گھر واپس بھیج دیا گیا ۔ عبدالصمد کے بھائی کی راشن کی دوکان ہے گائوں کے کچھ لوگوں کو شک تھا کہ ان کی وجہ سے ان کا راشن کارڈ بند کر دیا گیا ہے انہوں نے بھائی پر جھوٹے الزامات لگائے اور ان کاآپس میں جھگڑا ہوا گیا گائوں والوں نے بھائی اور پورے خاندان پر مقدمہ درج کروا دیا ۔ اسی دوران کچھ لوگوں نے ان کے گھر میں پرچیاں پھینکیں جن پر ’’پاکستانی مسلمان واپس پاکستان بھاگ جا نہیں تو۔۔۔درج تھا یہی نہیں بلکہ ان کے گھر کی دیوار پر کسی نے دہشت گرد لکھ دیا جو بعد میں ان کے والد جو گائوں کے پردھان بھی رہ چکے ہیں نے صاف کروایا۔ عبدالصمد نے مقابلے کا امتحان بھی پاس کر لیا لیکن انہیں کہا گیا جب تک آپ پر
 مقدمہ ہے سرکاری نوکری نہیں مل سکتی ۔ عبدالصمد اس کے بعد ان لوگوں کے پاس بھی گئے جنہوں نے مقدمہ درج کروایا تھااور معذرت کی لیکن انہوں نے مقدمہ واپس لینے سے انکار کر دیا ۔ یہ سب سہنے کے بعد عبدالصمد گائوں سے پیدل ہی اپنے ملک کا پرچم لے کر نکلے اور دلی میں عدالت عظمیٰ تک کے اپنے اس سفر کو ’’سماجی انصاف کے سفر ‘‘ کا نام دیااور انہیں یقین ہے کہ انصاف ملنے کے بعد آنے والوںلوگوں کے لیے یہ زیادتی کا دروازہ بند ہو سکتا ہے ۔
 پاکستان میں ان دنوں قیام پاکستان کی خوشیاں منائی جارہی ہیں ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں بابائے قوم محمد علی جناح کی قیادت میں درجنوں مسلم رہنمائوں کی انتھک محنتوں اور پھر لاکھوں قربانیوں کے بعدبرصغیر میں ایک الگ وطن کی حیثیت سے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار ہے ، آزادی کے دن کو منانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں تیاریاں عروج پر ہیں لیکن انہی دنوں ایک ایسی دلخراش خبرسامنے آئی جس نے قائد کے پاکستان پر کئی قسم کے سوالات کھڑے کر دیے ہیں ۔ یہ افسوسناک واقعہ جنوبی پنجاب کے علاقہ بھونگ میں پیش آیا ۔ کچھ دن پہلے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک نوسالہ بچے نے مسجد کی لائبریری کے پاس پیشاب کردیا جس پر متعلقہ مسجد کے لوگوں نے مسجد کی توہین کو بنیاد بنا کر بچے پر مقدمہ درج کر لیا ، دبائو کے باعث پولیس نے بچے کو گرفتار کیا اور کچھ ہی دنوں کے بعد عدالت نے بچے کی ضمانت منظور کی اور اسے رہا کر دیا گیا ۔ اس رہائی کی وجہ سے علاقہ میں جان بوجھ کر اشتعال پیدا کیا گیا اور مظاہرین نے مندر پر حملہ کیا اور برے طریقے سے توڑ پھوڑ کی ۔اس مندر کے اردگرد اسی کے قریب ہندو گھر ہیں وہاں بھی حملہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مندر کے قریب ایک مسجد اور ایک امام بارگاہ ہے ۔ کئی عرصہ سے ایسے ہی چلا آرہا ہے تاہم کبھی اس طرح کی اشتعال انگیزی نہیں دیکھی گئی ۔اس میں دوسری رائے نہیں ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے تاہم اس ملک کا آئین اور اسلام دونوں دیگر مذاہب کے لوگوں اور ان کی عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ نبی کریمؐ دور کا واقعہ ہے کہ ایک اعرابی دور سے آیا اور مسجد نبوی کے صحن کو گنداکرنے لگا ، وہاں موجود صحابہ کرام کی آوازیں بلند ہوئیں اور کچھ اسے منع کرنے کے لیے آگے بڑھے تو نبی رحمت ؐ نے انہیں روک دیا ۔جب وہ  حرکت کر چکا تو آپؐ نے اسے پیار اور محبت سے سمجھایا اور لوگوں سے کہاکہ اس جگہ
 پر مٹی ڈال دو ۔ یہ وہ ریاست مدینہ تھی جس کی بنیاد امام الانبیاء نے رکھی ۔یہی طرز عمل خلافت راشدہ کے دوران رکھا گیا ۔مذہبی ہم آہنگی کا اسلام جو نقشہ پیش کرتا ہے تاریخ اس کی عملی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ پھر پاکستان کے خالق قائد اعظم کی وہ تقریر ہم کیسے بھلا سکتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا ’’ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے ، آپ آزاد ہیں اپنی مساجد میں جانے کے لیے ، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ، ذات یا نسل سے ہو آپ ریاست پاکستان میں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں ‘‘
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ اسی لاکھ سے زائد دیگر مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں لیکن کچھ عناصر ایسے ہیں جو پاکستان میں قائم امن کی فضا کو برداشت نہیں کر پاتے ۔پاکستان میں سکھ برادری ، ہندواور عیسائی کمیونٹی کی طرف سے مسلمانوں کے مقدس مہینے میں افطار پروگرام کروائے جاتے ہیں اسی طرح ہولی کا تہوار ہو یا کرسمس کی تقریب مسلمانوں کی بڑی تعداد ان میں شریک ہوتی ہے۔ کرتاپور راہداری کا قیام اقوام عالم کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام تھا ۔ اسلام سمیت ہر مذہب امن ، محبت اور سلامتی کو فروغ دیتا ہے پھر یہ عناصر کون ہیں جو مذہب کے نام پر فساد کو فروغ دے رہے ہیں ۔ 
اس واقعہ کے بعد عدالت عظمیٰ کی جانب سے ازخود نوٹس پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی جاری ہے ۔قومی اسمبلی میں بھی اس کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر لی گئی ہے ۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو اس موقع پر جانا چاہیے تھا اور وہاں موجود ہندو کمیونٹی کو یقین دلا نا چاہیے تھا کہ ان کا تحفظ ان کی ذمہ داری ہے ۔اگرریاست مدینہ کے لیے کوشش کرنے والے وزیراعظم وہاں نہیں جا سکتے تھے تو کم از کم پنجاب کے وزیراعلٰی کو حکم دیتے کہ وہ جا کر اس کمیونٹی کے زخموں پر مرحم رکھیں ۔ مذہبی رہنمائوں کا یہ حق بنتا تھا کہ وہ وہاں جا کران کے ساتھ کھڑے ہوتے اور غیر اسلامی و غیر آئینی اقدامات کی نفی کرتے ہو سکتا ہے کہ اس طرح ان کے رویوں سے آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکتی لیکن قائد کے پاکستان اور گاندھی کے ہندوستان میں یہی فرق ہے ،وہاںعبدالصمد ’’سماجی انصاف کا سفر ‘‘ طے کرکے عدالت عظمیٰ اس امید کے ساتھ پہنچا کہ اس کی سنی جائے گی لیکن قائد کے پاکستان میں یہ سفرنہیں کرتا پڑتا بلکہ عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لیتی ہے ، پولیس اور رینجرزمکینوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے ، ذمہ داران کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ متفقہ قرارداد منظور کرتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن