پینے کا پانی ناپید۔شہری بوندبوندکوترس گئے

Aug 11, 2021

 چولستان اور عباسیہ کے الاٹیوں کو  پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے علاقہ بنجر قدیم کی منظر کشی کر رہا ہے پانی کی عدم فراہمی سے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں یونیسیف رپورٹ کے مطابق زیر زمین پانی کی سطح ریکارڈ حد تک کم ہو گئی ہے زیر زمین پانی مضر صحت اور زہر آلود ہو چکا ہے اس میں آرسینک کی ملاوٹ پائی جاتی ہے پانی کی عدم فراہمی اور محکمہ انہار کی چیرہ دستیوں کے خلاف چولستانیوں کے احتجاج جاری ہیں چولستانیوں نے الزام تراشی کی ہے کے محکمہ انہارنے مصنوعی قلت پیدا کر کے چولستانی اور عباسیہ کے اب نوشوں کو مالی بدحالی کا شکار کر رہی اور اس کو بنجر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ذرائع سے معلوم ہوا ہے محکمہ انہار کے اہلکار پانچ سو روپے لاٹ کے حساب سے لاکھوں روپے وصول کر چکے ہیں لیکن پانی کی قلت اور وارابندی برقرار ہے جس کی وجہ سے چولستان میں وسیع و عریض علاقے سے چولستانیوں کی نقل مکانی شروع ہے مال مویشی پالنے والے چولستانیوں نے اپنے مال کے ہمراہ روہی کے علاقہ میں بسیرا کر لیا معلوم ہوا ہے  موسمی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ٹوبوں سے پانی کا ذخیرہ ختم ہونے والا ہے اور قدرتی گھاس بھی ناپید ہو چکی ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کے سینکڑوں گائے پانی کی تلاش کے لیے ویرانے میں چلی گئی ہیں مالکان نے تلاش شروع کر دی ہے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے پانی نہ ملنے کے باعث یہ گائیں ہلاک نہ ہو گئی ہوں پانی کی قلت کے باعث چولستان میں پچاس فیصد علاقے پر کپاس کی کاشت ہوئی ہے اور کاشت کپاس بھی خشک سالی کا شکار ہے چولستانی شدید مشکلات اور مصائب و آلام سے دو چار ہیں پانی کا بروقت بندوبست نہ کیا گیا توچولستان بنجرہوجائے گا واضح رہے کہ کپاس وافرمقدار پر کاشت کی جاتی ہے اور چولستان سے گوشت اور دودھ وافر مقدار میں میسر ہوتا ہے جس سے بحران کا خطرہ ہے چولستان کے زرخیز علاقوں کو قدیم اور جدید عباسیہ سے نکلنے والی درجنوں نہرو ںسے آبپاشی ہوتی ہے اور یہ نہریں  مستقل بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں جبکہ کچا کے علاقوں کو سیراب کرنے والی پنجنند کینال ورکس کو دو ہزار تین چار کے دوران ششماہی کرکے جدید عباسیہ کا افتتاح کیا گیا جس میں 5000 کیوسک پانی کی گنجائش  ہے اس نہر سے چار لاکھ پچاس ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا ہے جب کے پنجنند کنال میں دس ہزار پانچ سات کیوسک پانی کی گنجائش موجود ہے کچہ کے علاقوں کو سیراب کرنے والی نہر سے دس لاکھ پچاس ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے جسے سابق ریاست بہاولپور کے حکمران نے انیس سو بیس میں ستلج ویلی کے نام سے ایک جدید نہری نظام متعارف کرایا جو ریاست کے صحرائی اور زرعی علاقے کی ضرورت کو سامنے رکھ کر بنایا گیا پاکستان میں پانی کی تقسیم کی ذمہ داری واسا کے سپرد ہے جو صوبوں کے درمیان معاہدے کے تحت منصفانہ فراہمی کو یقینی بناتی ہے اس بار پہاڑوں پر بارشیں کم ہونے اور درجہ حرارت میں تاخیر سے اضافہ ہونے کے باعث دریاؤں میں پانی کا بہائو خطرناک حد تک کم ہوگیا پاکستان کے دونوں بڑے ذخائر منگلا اور تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول تک پہنچ گئے ہیں واسا کا اندازہ تھا اس بار بیس فیصد پانی کی کمی ہو سکتی ہے لیکن یہ قلت تیس فیصد تک جا پہنچی ہے پنجند کو غیر مستقل کر کے قدیمی آبادی کا استحصال کیا گیا جبکہ جدید عباسیہ کو مستقل کر کے چولستان اور عباسیہ وسیع و عریض علاقے سیم اور تھوڑ کی زد میں آ چکے ہیں اس نہر کو غیر مستقل کر کے پنجند کینال کو مستقل کر دیا جائے جہاں یہ علاقہ سیم زد سے بچ جائے گا وہاں قدیمی آبادی کی زرخیز زمینیں سونا اگلیں گی پنجندکنال سے منچن برانچ اور دیگر چھوٹی چھوٹی نہریں ان علاقوں کو سیراب کرتی ہیں چھ ماہ کی بندش کے بعد اب وارہ بندی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہے کاشتکارزر کثیر سرمایہ خرچ کر کے اپنے فصلات کی آبپاشی کرنے پر مجبور ہیں زراعت اور اس پیشے سے منسلک افراد ملک کی ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں زراعت کے بغیر ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ہمیں پانی کی کمی پر قابو پانے کے لیے جتنے بھی اب ذخائر بن سکتے ہیں بھارت ایک حد تک ہی پاکستان آنے والا پانی روک سکتا ہے بارشوں کا پانی عموما سیلاب بن کر تباہی پھیلاتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے اس کو بھی ڈیموں کے پاؤنڈ میں جمع کر لیا جائے تو یہی زحمت ایک رحمت بن سکتی ہے۔

مزیدخبریں