گزشتہ مالی سال میں سمندری غذا کی تجارت میں 9.90فیصد کمی:فیصل افتخار 

اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان کی سمندری غذا کی تجارت میں گزشتہ مالی سال کے دوران9.90فیصد کمی ہوئی۔ایکوا فارمنگ سے مٹن، بیف اور پولٹری کی مانگ پر دبا وکم ہوگا۔ جالوں کے غیر قانونی استعمال سے مچھلی کا کاروبار تباہ،ماہی گیری کے شعبے پر ٹیکس چھوٹ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے لیے مچھلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ایکوا فارمنگ بہت زیادہ اہم ہو گئی ہے تاکہ کھپت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور آمدنی حاصل کی جا سکے۔ ماہی گیری کی صنعت میں مضبوط ترقی کے ساتھ ملکی معیشت اور غذائی تحفظ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے جس سے مٹن، بیف اور پولٹری کی مانگ پر دبا وبھی کم ہوگا۔ ماہی گیری سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں ساحلوں کے ساتھ رہنے والوں کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کراچی کے چیئرمین فیصل افتخار نے کہاکہ پاکستان کو ایکوا فارمنگ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہمیں اپنی برآمدی آمدنی کو بہتر بنانے کے قابل بنائے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مقدار کے لحاظ سے پاکستان کی سمندری غذا کی تجارت میں گزشتہ مالی سال کے دوران کمی واقع ہوئی۔ اور ہمارے 80 فیصداعلی قدر پروٹین کے ذخیرے ختم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ مقامی مچھلی پکڑنے والے جہازوں کی طرف سے غیر قانونی جالوں کا استعمال ہے جس کے نتیجے میں 80 سے 90 ہزارکلو گرام ہائی پروٹین والی  فش پکڑی گئی۔ فیصل افتخار نے کہا کہ مقدار کے لحاظ سے پاکستان کی سمندری غذا کی تجارت مالی سال 2021-22 میں 9.90 فیصد کم ہو کر 166,267 میٹرک ٹن رہ گئی جو کہ گزشتہ سال 184،45 میٹرک ٹن تھی۔ ہماری مچھلی کے معدوم ہونے کی بنیادی وجہ کم قیمت والے پروٹین کے ساتھ زیادہ قیمت والے پروٹین کا متبادل ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم چکن کے لیے مچھلی کو مار دیتے ہیںکیونکہ مچھلی کو چکن کے کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ماہی گیر مچھلی کو اس کے مکمل سائز تک پہنچنے دیں تو ایک کشتی  80 لاکھ کلو مچھلی پکڑ سکتی ہے ۔ہم مچھلیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ ماہی گیروں کی جانب سے جالوں کے غیر قانونی استعمال سے ہمارا مچھلی کا کاروبار تباہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ اسٹاک کی سطح کم ہو رہی ہے۔ پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے روشنی ڈالی کہ زیادہ تر ممالک نے پیداوار بڑھانے کے لیے کوسٹل فارمنگ اور سی فوڈ فارمنگ پر توجہ دی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر میرین فارمنگ ممکن ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت نے اس علاقے پر زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ صوبہ سندھ کا فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت کر رہا ہے اور امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ حکومت کو ماہی گیری کے شعبے میں توسیع کے لیے اس سے ٹیکس واپس لینا چاہیے۔ ماہی گیری کے جال کو اپ گریڈ کیا جانا چاہئے اور مچھلی پکڑنے والے بیڑے کو آدھا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سٹاک کی کمی کو روکا جا سکے۔ ہمیں کم مچھلیاں پکڑ کر زیادہ پیسہ کمانا چاہیے۔ اگر ہم چھوٹی مچھلیوں کو نہیں پکڑتے اور ان کے بڑھنے کا انتظار کرتے ہیں، تو ہماری آمدنی میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔انہوں نے حکومت کے ساتھ مل کر آبی زراعت کے دیہاتوں کو ترقی دینے کا مشورہ بھی دیا تاکہ کسانوں کو فارم قائم کرنے میں مدد ملے۔ اس طرح کا فارم ایک کسان کو سالانہ 25ہزارڈالرکما کر دے سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن