سیاسی ڈائری
میاں غفار احمد
سیاسی درجہ حرارت اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کوئی بھی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور سوشل میڈیا پر بدتمیزی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ حکومت نے سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کا فیصلہ اب کیا ہے ، جسے بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا ۔ باوجود تمام تر دعوؤں اور اقدامات کے آج بھی جعلی سمیں صرف دو سے تین ہزار میں دستیاب ہیں اور انہیں کوئی بھی کنٹرول نہیں کر سکا۔ حکومت کی طرف سے جن غریب خواتین کو امداد ملتی ہے ان کے شناختی کارڈز کی فوٹو کاپیاں انہی جعلی سموں کے اجراء کے لئے استعمال ہوتی ہیں حتیٰ کہ پولیس کے نچلے درجے کے ملازمین بھی اس طرح کی سمیں استعمال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر جاری اس طوفان بدتمیزی پر پہلے تو کسی نے توجہ ہی نہ دی ،جب بات ہاتھ سے نکل گئی تو بعض حضرات نے گندگی کے جواب میںزیادہ گندگی پھیلانے کی کوشش کر ڈالی۔
سچ یہ ہے کہ ایف آئی اے جس کا قیام 46 سال قبل ایک ایکٹ کے ذریعے ہوا ‘کے پاس سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لئے تجربہ کار سٹاف موجود ہے اور اگر ہے بھی تو بہت کم۔ دو سال قبل صورتحال یہ تھی کہ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن اور 11 اضلاع میں سائبر کرام کنٹرول کے لئے نصف درجن فیسر اور اہلکار تھے جبکہ ہزاروں درخواستیں زیر التوائ۔ اب بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں ہے اور اس وقت جتنا کرائم سوشل میڈیا کے ذریعے ہو رہا ہے وہ کس بھی لحاظ سے پاکستان پینل کوڈ کے تحت آنے والے جرائم سے کم نہیں ہے۔
ملتان سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 157 سے زین قریشی کی خالی کردہ نشست پر ان کی ہمشیرہ اور مخدوم شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی الیکشن لڑ رہی ہیں اور ’’اس عظیم مقصد ‘‘کے لئے وہ خصوصی طورپر کراچی سے تشریف لائی ہیں اس فیصلے کو پی ٹی آئی کے ورکرز قبول نہیں کر رہے اور اس پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ اس طرح کے غیر معروف فیصلے عمران خان کے ’’اصولی مؤقف‘‘ کی صریحاً نفی کر رہے ہیں جو کہ پی ٹی آئی کے مخلص ورکرز کے لئے بھی ناقابل قبول ہیں مگر سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی 2013ء اور پھر 2018ء کے الیکشنز سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سیاسی قائدین کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اب یہ قوم مزید تقسیم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
یوم عاشورہ امن و امان سے گزر گیا اور گلگت بلتستان میں جو غیر معمولی صورت حال تھی اﷲ کا شکر ہے کہ وہ محدود رہی ۔ بہت کم شکر کا مقام ہے کہ پاکستان کو مذہبی لحاظ سے تقسیم کرنے والوں کی سازشوں کو اب عام پاکستانی سمجھ چکے ہیں اور سوائے چند کے کہ جن کا اس سے روزگار وابستہ ہے عوام اس سے بتدریج لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں ان ایام میں سوشل میڈیا پر بھی تقریباً ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے شہادت امام حسین ؓاور شہدائے کربلا کے حوالے سے دکھ کا جو اظہار کیا وہاں احترام بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا یہ اس اجتماعی شعور کی بہت عمدہ مثال ہے جو چند سال سے بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔
بظاہر تو ایسی صورتحال نہیں لگتی مگر جنوبی پنجاب کے جو صاحب علم و روابط ہیں وہ اسی سال الیکشن کی بات کر ہے ہیں اور ان کے نزدیک کسی بھی وقت الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے اس صورتحال سے پر لندن میں زیر علاج میاں نواز شریف نے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے مطالبات کی ایک فہرست بااختیار حلقوں کے سامنے رکھ دی ہے کہ عمران خان کو نکال کر اب بااختیار بھی بند گلی میں ہیں اور ان کو نواز شریف سے ڈیل کرنے کے علاوہ فی الحال دوسرا آپشن نظر نہیں آرہا جبکہ نواز شریف نے اس صورتحال میں سب سے پہلے اپنی نااہلی کے خاتمے اور تمام مقدمات سے باعزت بریت کی شرط رکھی ہے جسے قبول کرانے کے لئے وہ زور لگا رہے ہیں۔
سیاسی پختگی جتنی بھی آ جائے شعور جتنا بھی بیدار ہو جائے‘ جنوبی پنجاب کے سیاستدان افسران کے تبادلوں سے باہر نہیں نکل سکتے اور اب بھی جنوبی پنجاب کا ان دنوں سب سے اہم ایشو کمشنر ملتان کی ٹرانسفر ہی بنا ہوا ہے جو پہلے پی ٹی آئی کو ’’لوریاں‘‘ دے کر ملتان میں ڈپٹی کمشنر رہے اور اب انہی عامر خٹک نے فوری قبلہ تبدیل کر کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں پر بیعت کر لی یہ بیعت کسی بھی طور پر شاہ محمود قریشی کو منظور نہیں۔ اب الیکشن تک تبادلے تو نہیں ہو سکتے جس پر کمشنر ملتان نے اس دباؤ پر چھٹی کی درخواست دے دی جو کہ رد کر دی گئی ہے بیوروکریسی پر بھی افسوس ہے کہ اپنی ساری خوداری ساری ذہانت محض ایک تقرری پر فروخت کرنے کے لئے پیش کر دیتے ہیں ۔
گندگی کا جواب زیادہ گندگی پھیلا کر دینے کی کوشش
Aug 11, 2022