روشنی کے سفیر

ہمارے تعلیمی اداروں کے تدریسی سٹاف میں قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ پڑھتے نہیں بس پڑھاتے ہیں، البتہ انھیں ترقی حاصل کرنے کے کچھ فارمولے ہاتھ آگئے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں ترقی یافتہ ممالک کی جامعات میں ہونے والی تحقیق نے انسانیت کی بقا کے لیے انکشافات کے نئے در کھول دئیے ہیں۔ ہم ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے منظورشدہ رسائل میں تسلسل سے مضامین ِنو کے انبار لگا کر اپنا سی وی مضبوط بناتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب استاد اور شاگرد کے مابین ایک مضبوط تعلق ہوتا تھا۔ استاد ایک روحانی ہستی سمجھا جاتا تھا، شاگردکو اس کی ذات میں ماورائیت محسوس ہوتی تھی، وہ لاشعوری طور پر اپنے استادکی عادات وخصائل کو اپنانے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی پدرانہ شفقت کے باعث استاد بھی ایک چھائوں چھڑکتے ہوئے بور لدے چھتنارجیسا تھا۔ آج کا استاد اگر نمک کی کان میں رہتے ہوئے نمک ہو گیا ہے تو اس کے اسباب ومحرکات پرغورکیا جانا جانا چاہیے۔ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ہمارے ہاں استادکو مطعون کرنا ایک رواج بن گیا ہے۔ ایک سادہ سا سوال ہے کہ استاد نے معاشرے کے فکری ارتقا میں اپنا کردار ادا نہیں کیا تو دیگر طبقوں  نے اس سلسلے میں کیا کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ بات یہ ہے کہ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو ترتیب دیتے ہوئے ہمارے ارباب اقتدار نے تعلیم اور نظام تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی۔ نصاب سازی کی اشتہار بازی سے لے کر میڈیا کی مصنوعی چکا چوند میں جج،  فوجی افسر، ڈاکٹر، بزنس مین، سیاست دان اور کھلاڑی وغیرہ کو مثال بنا کر پیش کیاگیا، سماج میں استاد کے لیے کہیں کوئی قابل عزت جگہ ہی نہیں رکھی گئی۔ اس صورت میں آپ استاد سے شخصیت سازی کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔ آج کا استاد پر آسائش زندگی کی طلب میں اگر مادیت پرست ہوگیا ہے تو شاگرد بھی کسی سے کم نہیں۔
تھے وہ بھی دن کہ خدمت ِاستادکے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجیے
بدلا زمانہ ایساکہ لڑکا پس ازسبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ’’بِل پیش کیجیے‘‘۔
حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں جنسی ہراسگی اور منشیات فروشی کی خبریں سن کر باشعور دماغوں میں متعدد سوالات نے جنم لیا۔ اس پوری مہم میں چند شیطان صفت کرداروں کی وجہ سے جنوبی پنجاب کی ایک تاریخی جامعہ اوراس کے اساتذہ کی جس منظم اندازمیں کردار کشی کی گئی اس کے بعد کسی بھی معتدل اور متحمل معاشرے کے لیے بدنامی کے اس بارگراں کو اٹھانا کیسے ممکن ہے؟ حالات خراب تھے تو الزمات کی اس بوچھاڑ میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پرجس انداز سے جامعہ کا ٹرائل کیا گیا، یہ کسی بھی مہذب معاشرے کا طریق نہ تھا۔ ایک زمانے میں واحد سرکاری ٹی وی پر ہومیوپیتھک ادویات کی طرح بے ضرر خبریں نشر ہوتی تھیں، ہمارے بزرگ لذت کام ودہن کے لیے چوپالوں اور مہمان خانوں میں حقیقت ِ حال جاننے کے لیے بی بی سی لندن، وائس آف امریکہ اور ریڈیو ماسکو کے پروگرام سنتے تھے، اب تو ہر کسی کے ہاتھ میں کیمرا اور مائیک آگیا ہے، تیز ہوائوں میں دستار سنبھال کے رکھیں کہ اب عزت بھی خشک پتوں کی صورت اختیارکرگئی ہے۔ اس صورتحال میں ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد کے زیراہتمام ’’روشنی کے سفیر‘‘ کے عنوان سے دوجلدوں میں شائع ہونے والی کتاب کی اشاعت باد بہاری کے کسی جھونکے سے کم نہیں۔
اس کتاب میں سید ابوالخیر کشفی، پطرس بخاری، ڈاکٹر اقتداحسین، خواجہ منظورحسین، سجاد باقر رضوی، عابدعلی عابد، سید عبداللہ، علی عباس جلالپوری، غلام جیلانی برق، غلام مصطفی خان، کرار حسین، محمد حسن عسکری، مولوی محمد شفیع، نبی بخش بلوچ، نادرقنبرانی، عرش صدیقی، اسلم انصاری، عاصی کرنالی، الف د نسیم، وحیدقریشی، سید وقارعظیم، افتخاراحمد صدیقی، خلیل صدیقی، اقبال آفاقی، سعداللہ کلیم، صابر کلوروی، ظہور احمد اعوان، سی اے قادر، صوفی ضیاالحق اور خورشید رضوی سمیت ایک سو تیرہ عظیم اساتذہ کی خدمات درج ہیں۔ افتخار عارف اور ڈاکٹر رئوف پاریکھ صاحبان کی سربراہی میں ڈاکٹرر اشدحمید، ڈاکٹر صفدر رشید اور ڈاکٹر انجم حمید نے اس تاریخی دستاویزکو مرتب کیا ہے۔ کتاب میں درج واقعات پڑھیئے، آپ کو زندگی کے کسی شعبے میں ایسی نادر ہستیاں نہیں ملیں گی۔ ’’ایک مرتبہ چند مرید آپ (ڈاکٹر غلام مصطفی خاں) سے ملنے آئے، باہرکیچڑ تھی جس سے ان مہمانوں کے جوتے خراب تھے۔ جب یہ لوگ کمرے میں تھے تب ڈاکٹر صاحب نے باہر جاکر خاموشی سے مہمانوں کے جوتے دھوکر خشک ہونے کے لیے فرش پر دیوار کے سہارے رکھ دئیے۔ شاگردوں پر بھی مہربانی کی ایسی بارش بدستور جاری رہتی، ایک مرتبہ ایک شاگردہ کے پاس فیس جمع کے لیے پیسے نہ تھے۔ جب ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا توآپ نے کلاس کی سب بچیوں کی فیس اپنی تنخواہ سے جمع کرادی اوراس شاگردہ سے کہا اگرمیں صرف آپ کی فیس دیتا تو مناسب نہیں تھا۔ سب کو معلوم ہو جاتا کہ آپ کی مددکی گئی ہے۔ پھر یہ بھی توہے کہ باقی بچیاں بھی تومیری بیٹیاں ہیں‘‘
’’ایک دفعہ قمرعباس نے آپ (سید سجاد باقر رضوی) کے بوٹ دیکھ کرپوچھاکہ یہ کہاں سے لیے۔آپ نے بتایا کہ دراصل میرے پائوں بہت چھوٹے ہیں۔ میری اہلیہ بچوں کے جوتوں میں سے سب سے بڑے سائزکا جوتا خریدکرلاتی ہیں جو انھیں فٹ بیٹھتے ہیں۔ قمرعباس حیران ہوئے توآپ نے کہا۔ دیکھو قمر عباس! میرے اندر تین زمانے سانس لیتے ہیں، میں پائوں سے بچہ ہوں، دل سے جوان اور سر سے بوڑھاہوں‘‘
’’انکی (پروفیسر کرار حسین) کی اہلیہ انکے شاگردوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔ وہ نہایت پابندی سے سہ پہرکے وقت ایک ہاتھ میں موگرے کی کلیوں سے بھری طشتری اوردوسرے ہاتھ میں کرار صاحب کے لیے تازہ پھلوں کے رس سے بھرا گلاس لے کروہیں آجاتی تھیں جہاں انکے شوہر نامدار اپنے طلبہ کو ان کے سوالوں کے جواب لکھوا رہے ہوتے تھے۔ میں نے اس جوڑے کے ان لمحات میں مسکراہٹ میں جو حسن، ذوق، جوش اور شوق دیکھا وہ لفظ وتراکیب کے احاطے سے ماورا ہے۔‘‘
’’انھوں (محمد حسن عسکری) نے پاکستان کی امریکہ دوستی پرسخت تنقیدکی اور روس کی طرف سے مصر کی حمایت ہر تعریف کی۔ وہ دانشوروں اور صحافیوں کو جھنجھوڑتے تھے کہ صرف ادب وفن میں مست رہنے کی بجائے کچھ اپنے ملک وقوم کابھی سوچیں۔ جس پاکستان کا تصور محمد حسن عسکری کے ذہن میں ہمیشہ سے تھا، پاکستانی حکومت کی اس تصور کی طرف غفلت شعاریوں کے سبب وہ اس سے مایوس ہونے لگے تھے اورایوب کے مارشل لاء کے بعد تو وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئے۔ یہی عرصہ تھا جب عسکری کی زندگی میں آخری بڑی تبدیلی آئی اور انھوں نے پیرویِ مغرب سے آگے نکل کر پوری مغربی تہذیب اور ادب پر ہی سوال اٹھانا شروع کردئیے‘‘
یہ کتاب نہ صرف ہمارے قومی مشاہیر (National Icons) کے لیے عقیدت کااظہار ہے بلکہ اس کی اشاعت سے ہم اپنے گم شدہ علمی سرمائے کی نئے سرے سے بازیافت بھی کر سکیں گے۔ کاش ہم شخصیات کے مقام اور مرتبے کا تعین شہرت کے بجائے ان کی قدوقامت کو سامنے رکھ کر کیاکریں۔

ای پیپر دی نیشن