سائفر کہانی، سرکاری سکولوں کے مسائل، بروقت الیکشن پر خدشات اور ایس آئی ایف سی!!!!!!

Aug 11, 2023

محمد اکرام چودھری

پاکستان تحریک انصاف کو اس کے بیانیے کی وجہ سے عوامی مقبولیت تو ملی لیکن سنجیدہ حلقوں میں اس جماعت کی ساکھ کو شدید نقصان بھی پہنچا چونکہ بیانیہ غلط بیانی، جھوٹ، نفرت اور لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے والا بنایا گیا۔ وسائل سے محروم افراد کے جذبات کو ہدف بنا کر مسلسل جھوٹ بولا گیا لوگ تو متاثر ہوئے لیکن بین الاقوامی سطح پر ملکی تعلقات کو شدید نقصان پہنچا۔ سائفر بیانیہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وہ بات عمران خان کریں یا امریکہ میں کوئی اس حوالے سے خبر شائع ہو یہ بات طے ہے کہ ایک اور جھوٹ سامنے آئے گا کیونکہ خود پی ٹی آئی چیئرمین بھی امریکی مداخلت سے انکار کر چکے ہیں۔ ایسی چیزیں تو تابوت میں آخری کیل ہی ثابت ہونگی۔ بہرحال عمران خان جیل جا چکے ہیں۔ بیرونی دنیا میں ان کے حمایتی تڑپ رہے ہیں۔ کسی کو یہ احساس نہیں ہے کہ ملک میں منظم بغاوت کرنے والے کسی بھی شخص کو ریاست کیسے نظر انداز کر سکتی ہے اور کھلا چھوڑ سکتی ہے۔ بہرحال کوئی کچھ بھی کرے یا کہے واقعی پاکستان کو نقصان پہنچانے کہ سازش ناکام ہو چکی ہے اور اس سازش کے مرکزی کرداروں کو بھی منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
طالبان خواتین کے تعلیم کے خلاف ہیں اور وہ اس حوالے سے پابندیاں بھی لگا رہے ہیں۔ دنیا تو طالبان کی خواتین مخالف قانون سازی پر آواز بلند کرتی ہے پاکستان میں بھی ایسے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے تنقید ہونی چاہیے۔ لڑکا ہو یا لڑکی تعلیم سب کا بنیادی حق ہے اور کوئی جہاں تک تعلیم حاصل کرنا چاہے اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو عام کریں۔ طالبان کو بھی ایسے سخت فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہم طالبان کے سخت فیصلوں کی بات تو کرتے ہیں لیکن اگر وسائل اور طرز حکومت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کہیں کہیں ہمارے فیصلہ سازوں میں بھی وہ بے رحمی اور شدت ضرور نظر آتی ہے۔ مطلب حصول تعلیم ہمارے ہاں بھی کچھ آسان نہیں ہے اور بچوں کی تعلیم پر حکومت جتنی توجہ دیتی ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بچے اور بزرگ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ نظر انداز ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک معاشرتی المیہ ہے بات تعلیمی سہولیات اور ماحول کی ہے تو یہاں مہنگائی اور بالخصوص توانائی کے بحران کی وجہ سے بھی سرکاری سکولوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
چند روز قبل ہربنس پورہ کے علاقے قلندرپورہ میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کے برآمدے کی خستہ ہال چھت گر گئی۔ موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے  کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مطابق گورنمنٹ گرلز ہائی سکول قلندرپورہ کی دو منزلہ عمارت کے برآمدے کی خستہ ہال چھت کا کچھ حصہ گر گیا۔ سکولوں کو جو فنڈز ملتے ہیں ان میں نظام چلانا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سکولوں میں استعمال ہونے والی بجلی کو کمرشل کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے بجلی کے بلوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے بلوں کی ادائیگی کے بعد سکولوں کے پاس دیگر کاموں کے لیے فنڈز ہی نہیں بچتے۔ بہت سے سکولوں میں رنگ روغن کا کام بھی روکا ہوا ہے، اسی طرح دیگر اہم اور ضروری کاموں کے لیے بھی فنڈز کی قلت ہے۔ بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ سڑکوں میں گڑھے پڑ رہے ہیں۔ ان حالات میں سرکاری سکولوں کی چھتوں کا گرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ بچوں کو سکولوں میں ایسے ذہنی پریشانیوں سے آزاد ہو کر آنا چاہیے۔ حکومتوں کو کم از کم دسویں جماعت تک تعلیم کو برائے نام مفت کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں مفت کرنا چاہیے اگر سرکاری افسران اور ملازمین کو مراعات دی جا سکتی ہیں تو پھر ان بچوں کی تعلیم کو ہر لحاظ سے مفت کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری سکول کی عمارتوں کا پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ کی طرح خیال کیوں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ سوچنے کی باتیں ہیں۔ جو قوم کا مستقبل ہیں حکمران جو انہیں دیں گے وہ وہی مستقبل میں قوم کو واپس کریں گے۔
 رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ "دو ہزار تئیس الیکشن کا سال نہیں ہے۔ آئین میں درج ہے کہ 2017 میں جو مردم شماری ہوئی اس پر دوسرا الیکشن نہیں ہو سکتا اور مردم شماری ہوجائے تو حلقہ بندیاں ضروری ہیں، نگران حکومت آئینی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے حلقہ بندی کرائے گی، حلقہ بندیوں میں تقریباً ایک سو بیس دن لگتے ہیں اس میں کئی ماہ والی بات نہیں۔"
رانا صاحب کہتے ہیں 2023 الیکشن کا سال نہیں ہے میں چاہتا ہوں کم از کم 2025 تک الیکشن نہ ہوں۔ کوئی ایسا نظام چلتا رہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری نہ ہو اس دوران سیاست دانوں کی کلاسیں ہوں۔ صلاحیتوں میں اضافے اور انتظامی معاملات کو چلانے کے لیے وہ مختلف کورسز کرتے رہیں۔ انہیں ایسے ماحول میں رکھا جائے کہ وہ ہر حال میں سچ بولیں۔ صبح دوپہر شام کی بنیاد پر میرٹ کا سبق پڑھایا جائے۔ اس دوران تمام سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ قوانین، اصول، قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کوئی بھی کام نہ کریں۔ ان میں جرات انکار پیدا کریں۔ آج اگر ریاستی ادارے خسارے میں ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ بدانتظامی اور حکمرانوں کے غلط فیصلے ہیں۔ نجانے کس کس کو بھرتی کیا ہوا ہے، کس کس کو بغیر کام کے تنخواہ ملتی رہتی ہے، ادارے خسارے میں لیکن تنخواہوں اور مراعات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حکمران اپنے ووٹرز اور فنانسرز کو ناراض نہیں کرنا چاہتے لیکن قومی اداروں کی تباہی قبول کرتے ہیں۔ پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز، پاکستان ریلویز اور اور سٹیل مل سمیت وہ تمام ادارے جنہیں منافع بخش ہونا چاہیے جنہیں ملک کا مالی بوجھ تقسیم کرنا ہوتا ہے وہ ملک پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب کسی نے باہر سے آ کر تو نہیں کیا یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے۔ اس لیے انتخابات انتخابات کی رٹ لگانے کے بجائے اصل مسائل پر توجہ دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کی ایپکس کمیٹی نے دوست ممالک کو سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے منصوبوں کی حتمی منظوری دی ہے۔ ایپکس کمیٹی نے دوست ممالک سے جن شعبوں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی ہے ان میں زراعت، لائیو سٹاک، کان کنی، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے اہم شعبے شامل ہیں۔ یہ اعلامیہ خوش آئند ہے دنیا معاشی جنگ لڑ رہی ہے اب دفاعی طور پر مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے تجارتی تعلقات بھی بہت اہم ہو چکے ہیں۔ بھارت کو دیکھیں تو یہ بات اور بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتا ہے لیکن دنیا کے ساتھ اس کے مالی مفادات ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف عالمی طاقتیں بھی کارروائی نہیں کرتیں۔ بھارت میں ہندوو¿ں کے علاوہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے آزادی نہیں ہے۔ سکھوں کو ہی دیکھ لیں وہ کس طریقے سے علیحدگی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں بالکل اسی طرح عیسائیوں اور مسلمانوں کو بھی ایسے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن دنیا خاموش ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو بھی معاشی ترقی اور دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو معاشی پالیسیوں میں استحکام کا ہونا لازمی ہے۔ 
آخر میں اختر شمار کا کلام
اے دنیا تیرے رستے سے ہٹ جائیں گے
آخر ہم بھی اپنے سامنے ڈٹ جائیں گے
ہم خود کو آباد کریں گے اپنے دل میں
تیرے آنکھ جزیرے سے اب کٹ جائیں گے
دھند سے پار بھی کام کریں گی اپنی نظریں
آنکھ کے سامنے سے یہ بادل چھٹ جائیں گے
آخر ڈھل جائے گا ''جیون روگ'' کا سورج
ہم بھی ''اوکھے دن'' ہیں لیکن کٹ جائیں گے
لوگ ہمیں محسوس کریں گے پھول اور تارے
اور ہم سوچتی ''دل آنکھوں'' میں بٹ جائیں گے
دیکھنا ایسی رات بھی آئے گی جب اختر
دھیرے دھیرے ہم تاروں سے اٹ جائیں گے

مزیدخبریں