نگران وزیراعظم ، پہلا دور بے نتیجہ ، آج پھر مشاورت 

 اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری+ خبر نگار خصوصی) نگران وزیراعظم کے تقرر کے لئے وزیراعظم شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض کے درمیان پہلی بیٹھک بے نتیجہ رہی، دونوں قائدین نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت کے لئے آج دوبارہ ملاقات کریں گے۔ نگران وزیراعظم کے تقرر پر اتفاق رائے کے لئے دونوں کے پاس کل رات بارہ بجے کا وقت ہے جس کے بعد یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق راجا ریاض کو باضابطہ طور پر خط لکھ کر مشاورت کے لیے مدعو کیا جس کے بعد راجہ ریاض وزیراعظم سے ملنے وزیراعظم ہاﺅس پہنچے، جہاں دونوں رہنماﺅں نے اپنے اپنے نام ایک دوسرے کو پیش کئے۔ ذرائع کے مطابق مشاورت کی تاہم کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ جن ناموں پر غور کیا جا رہا ہے ان میں سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام شامل ہیں، یہ دونوں نام پیپلزپارٹی کی جانب سے تجویز کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ فواد حسن فواد، حفیظ شیخ اور میاں محمد سومرو شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر کی جانب سے موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کا نام بھی تجویز کیا گیا ہے جس کے بعد نگران وزیراعظم کی دوڑ میں ایک اہم نام کا اضافہ ہو گیا ہے۔ واضح رہے اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران وزیراعظم کا نام فائنل کرنے کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے پاس کل رات بارہ بجے تک کا وقت ہے، اگر اس مدت تک نام فائنل نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔ وزیراعظم ہاﺅس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کے ناموں پر مشاورت کا پہلا دور خوشگوار ماحول میں ہوا، آج (11اگست کو) اس ضمن میں دوبارہ مشاورت کی جائے گی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ ریاض نے کہا کہ نگراں وزیر اعظم کے لیے نام پر بات چیت کی گئی، میں نے نام دیئے ہیں اور وزیراعظم نے بھی نام دیے ہیں، ہماری ایک گھنٹہ مشاورت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر چھ نام سامنے آچکے ہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ کسی ایک نام پر اتفاق ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ حتمی فیصلہ تک نام ظاہر نہیں کئے جائیں گے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں وسائل اور صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے، سب کو پاکستان کی خوشحالی کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا، موجودہ وقت میں اتحاد و یکجہتی کی انتہائی ضرورت ہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے رہنما اصولوں کے مطابق پاکستان کو چلانے کا عزم کرنا ہو گا۔ وہ جمعرات کو وزیر اعظم ہاﺅس اور آفس کے عملہ کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانہ سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے گریڈ ایک سے سولہ کے ملازمین میں حوصلہ افزائی سرٹیفکیٹ تقسیم کئے۔ اس موقع پر وزیراعظم ہاﺅس و آفس کے عملہ کی جانب سے وزیراعظم کو ان کا پورٹریٹ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ میں 16 ماہ کے دوران معاونت اور رہنمائی پر وزیراعظم ہاﺅس و آفس کے تمام عملے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بدقسمتی سے قائد اعظم کی رحلت کے بعد ہم اس راستے سے بھٹک گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کریں اور اس عزم کی تجدید کریں کہ ہم قرآن کریم اور نبی کریم ؓ کی تعلیمات، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے مشن کی تکمیل کے لئے متحد ہوں اور ایک لڑی میں پرو کر ہم پاکستان کی خدمت کریں کہ آنے والے سالوں میں نہ صرف ہمیں قرضوں سے نجات ملے بلکہ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم پاکستان کے وسائل کو بچا کر انصاف کے طریقے سے غربت، بیروزگار ی اور ناخواندگی کے لئے استعمال کریں تو ہمیں کہیں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کمی صرف کام کرنے کی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ 16 ماہ کا عرصہ چیلنجوں سے بھرپور تھا، مشکل سے مشکل مسائل کے حل کیلئے راستے تلاش کئے، باہمی تعاون اور مشاورت کے ساتھ اچھے طریقے سے مخلوط حکومت چلائی گئی، ماضی قریب میں اچھے کام کرنے والے افسران زیر عتاب رہے، سابق حکومت نے عوامی خوشحالی کے منصوبوں کو بند کئے رکھا، اللہ تعالی نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے، سسٹم کی خرابیوں کو دور کرنا ہو گا، مجھے یقین ہے کہ حالات مزید بہتر ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو وفاقی سیکرٹریز سے الوداعی ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 13جماعتوں پر مشتمل یہ حکومت تھی اور باہمی تعاون اور مشاورت کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے مخلوط حکومت چلائی گئی اور یہ تاریخ کا حصہ بنے گی کہ ترقی پذیر ممالک میں مخلوط حکومت بھی چل سکتی ہے بشرطیکہ عوامی خدمت کی پختہ سوچ ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ چونکہ مخلوط حکومتیں چاروں صوبوں میں قائم تھیں اس لئے بہت سے معاملات حل کرنے میں آسانی رہی۔ وفاقی سیکرٹریز اور دیگر سرکاری افسران کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہر موقع پر میری رہنمائی کی اور معاملات کو حل کرنے میں تعاون کیا۔ ماضی قریب اور ماضی بعید میں اچھے کام کرنے والے افسران ہمیشہ نشانہ بنے اور زیر عتاب رہے، یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس سے عوامی خدمت میں بہت انحطاط آیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج چیلنج بہت بڑا ہے، سولر کا 10 ہزار میگاواٹ کا ہم نے ایک جامع منصوبہ بنایا، لیکن سب سے بڑی وجہ سرخ فیتے کی رکاوٹ تھی، جو ٹیرف دیا گیا تھا اس کو قبول نہیں کیا گیا، یہی اس نظام کی خرابیاں ہیں جنہیں دور کرنا ہو گا، معاہدہ نہ ہوتا تو پتہ نہیں کتنی تباہی ہوتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سرکاری افسران نے سیلاب کے دوران بھی بڑا بہترین کام کیا۔ پاکستان کو 16 ماہ میں خارجہ محاذ پر بھی بہت کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ 16 ماہ میں اللہ تعالی نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ مشکل حالات کے باوجود نیک نام افسران نے بہت اچھا کام کیا اور جنہوں نے تھوڑی سستی دکھائی امید ہے کہ وہ آگے ٹھیک کام کریں گے۔ آپ نے ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ حالات مزید بہتر ہوں گے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف سے سابق ممبران قومی اسمبلی رانا ارادت اور احمد رضا مانیکا نے ملاقات کی۔ جمعرات کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیراعظم محمدشہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان کے دور میں ہماری خارجہ پالیسی کو بہت نقصان پہنچا، عمران خان کا بیانیہ تھا کہ امریکی سازش سے ہماری حکومت آئی مگر یہ جھوٹ ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر معمول پر نہیں آ سکتے۔ جمعرات کو ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے برادر ممالک ہم سے سخت نالاں اور ناراض تھے، عمران خان نے سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ بھی تعلقات خراب کئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب کو نیچا دکھانے کے لئے کوشش کی گئی کہ ایک بلاک بنایا جائے اور اس بلاک کے ذریعے سعودی عرب کو تنہا کیا جائے، یہ کتنا افسوسناک واقعہ ہے اور کتنی گری ہوئی سوچ ہے کہ دوست ملک جو بغیر کسی شرط اور لالچ اور کسی بدلے کی توقع کئے آپ کو بھائی اور خاندان کی طرح مدد کرے اور ہم اسی کے احسان فراموش بن جائیں اور یہ کہیں کہ سعودی عرب کے بغیر ہم کشمیر کاز کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ دونوں برادر ممالک میں اتنی خراب صورتحال کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا جو عمران نیازی کے دور میں ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر سائفر کے مندرجات جو (بین الاقوامی اخبار میں) چھپے ہیں وہ درست ہیں تو یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ بین الاقوامی جریدے دی انٹرسیپٹ میں سائفر کے حوالے سے چھپنے والی خبر کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ سائفر کے حوالے سے قومی سلامتی کونسل کے 2اجلاس ان کی سربراہی میں ہوئے، ایک اجلاس میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اور موجودہ سیکرٹری خارجہ اسد مجید نے واضح طور پر کہا کہ ان کی امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو سے ملاقات میں سازش کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور سروسز چیفس نے بھی تائید کی تھی کہ پاکستان کے خلاف سازش نہیں ہوئی۔ عمران نیازی کا یہ بیانیہ تھا کہ امریکہ نے ان کی حکومت اس لئے گرانے کی کوشش کی کہ وہ چین اور روس کی طرف زیادہ راغب تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر امریکی سازش سے خدانخواستہ ہماری حکومت بنتی تو ہمیں روس سے تیل ملتا؟۔ ہمارے چین سے تعلقات بحال ہوتے جنہیں عمران نیازی نے تباہ کردیا تھا؟۔ تو بس یہی ایک ثبوت کافی ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عمران نیازی نے بعد میں دوسرے بیان میں خود کہا تھا کہ امریکہ نے کوئی سازش نہیں کی، اب آپ ان کے پہلے بیان کو مستند مانیں گے یا دوسرے کو؟۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ خدانخواستہ امریکی سازش سے یہ حکومت آئی ہوتی تو ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ ہرگز توقع نہیں تھی کہ کوئی پاکستانی وزیراعظم اس طرح کا بدترین زہر ملک کے خلاف اگلے گا، یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ البتہ یہ ضرور ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں جو بگاڑ آگیا تھا ہم نے اس کو باہمی احترام اور اعتماد کی سطح پر لانے کے لئے بہت محنت کی۔ نگران وزیراعظم کے حوالے سے تاخیر کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس سے قبل آئین کے تحت اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کے درمیان نگران وزیراعظم کے حوالے سے مشاورت نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب جبکہ گزشتہ رات یہ مرحلہ مکمل ہوگیا اور صدر نے اسمبلی تحلیل کردی ہے تو اس کے بعد اپوزیشن لیڈر سے اس پر بات ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی وہ نگران وزیراعظم کے حوالے سے نام نہیں بتا سکتے مگر جو بھی بات ہوگی وہ پردے میں نہیں ہوگی اور معاملہ سامنے آجائے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کشمیر کے منصفانہ حل کو تلاش کئے بغیر رابطے بحال نہیں ہوسکتے کیونکہ اپنے حق کے حصول کے لئے کشمیریوں کی عظیم قربانیاں ہیں اور 75 سالوں میں ہزاروں کشمیری ماﺅں اور بیٹیوں کے آنچل پھٹے، بچے اور بزرگ شہید ہوئے اور کشمیر کی وادی ان کے خون سے سرخ ہوئی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ کشمیریوں کا حق خودارادیت کا مسئلہ حل ہوئے بغیر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کس بھی طرح معمول پر نہیں آسکتے ہیں، میں نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں اچھے ہمسائے کی طرح رہنا چاہئے لیکن اس کے جو تقاضے ہیں جیسے کشمیر اور پانی کا مسئلہ ہے اور ان کو حل کئے بغیر تعلقات بحال نہیں ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تنازعات کا حل نہ ہونا بدقسمتی ہوگی کہ اس خطے میں جہاں غربت اور بے روزگاری ہے وہاں ہم اپنے وسائل ترقی پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے دفاع کے لئے مہنگے آلات خریدنے پر لگائیں۔ پی ٹی آئی نے سپورٹ کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ ہمیں کوئی خوشی نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں گئے ہیں۔ جب ہم جیلوں میں جاتے تھے تو چیئرمین پی ٹی آئی خود کہتے تھے ہم نے جیلوں میں بھیج دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی اٹک قلعہ میں نہیں اٹک جیل میں ہیں۔ نواز شریف اگلے ماہ آ جائیں گے، قانون کا سامنا کریں گے۔ نہ ٹوپ پہنیں گے نہ بالٹی۔ نواز شریف آکر انتخابی مہم کو لیڈ کریں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کھل کر کہا کہ شہبازشریف نے چینی منصوبوں میں45 فیصد کمشن لیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات تباہ کر دیئے۔ انہوں نے چین میں فرانزک ٹیسٹ کیلئے ٹیمیں بجھوا دیں ثبوت ہوتا تو کیا میں آج آپ کے سامنے بیٹھا ہوتا؟۔ مجھے جیل میں ڈال دیا جاتا۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ چیئرمین سینٹ نے وزیراعظم کو حکومت کے 16 ماہ کامیابی سے مکمل کرنے کی مبارکباد دی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...