معاشی تسلسل برقراری؟اسحاق ڈارکو ہی نگران وزیز خزانہ رکھیں!

  نشاندہی…      ڈاکٹر فاروق اعظم ہاشمی   
نبی کریمؐ کی حیات طیبہ میں مدینہ شریف میں پہی اسلامی ریاست وجود میں آئی اس وقت کے حالات و واقعات میں ریاست کے ابتدائی شعبہ جات ابتدائی شکل میں وجود میں آئے ان میں مالیاتی معاملات ریاستی لین دین کے ذمہ دار ادارے کا نام بیت المال تھا اور حساب کتاب کے ما ہر صحابہ کرام کو اس مرکزی شعبہ کا سربراہ بنایا جاتا تھا کیونکہ تمام ریاستی معاملا ت و واقعات کا سلسلہ آخر کار وزارت خزانہ یعنی بیت المال سے جاملتا تھا ۔ تقریباََ ایسے ہی حالات خلیفہ راشد اول سید نا حضر ت ابو بکر صدیقؓ کے زمانے تک رہے خلیفہ الراشد دوئم سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں آج کے دور کی تقریباََ تمام اصلاحات مروج ہوئیں اور تمام ریاستی محکمہ جات الگ الگ حیثیت میںوجود میں آئے اور خلیفہ راشد چہارم سید نا حضرت علیؓ کے دور مبارک تک یہ تمام محکمہ جات اپنی حیثیت میںاستحکام حاصل کر چکے تھے۔ 41ہجری کے بعد خلافت بادشاہت میں بدل گئی اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے اڑھائی سال کی پانچویں خلافت راشد ہ کے بعد مسلمان آج تک خلافت راشدہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکے۔ ٭ہندوستان میں کچھ حکمرانوں نے رفاء عامہ کے بہت سے کام کئے اور وزارت سرکاری آمدن یعنی خزانہ کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا۔ جیسے شیر شاہ سوری ، علاوالدین خلجی کچھ مغل حکمرانوں وغیرہ۔ لیکن مغل شہنشاہ اکبر نے پورے ہندوستان کی زمینوں کی دوبارہ پیمائش کروائی ہر چیز کو سرکاری ریکارڈ کے اعدادوشمار میں واضح کیا اور تمام ریاستی محصولات آمدن، خرچ ٹیکس وغیرہ کے خزانہ کے نظام کو بہت مضبوط بنیادوں پر استوار کیا اور مذہب سے قطع نظر قابل ہندو معاشی ماہرین ٹوڈر مل وغیرہ کو وزارت خزانہ جیسے اہم ترین منصب پر فائز کیا ۔ اتنے قابل بندوں کی تقرری سے سرکاری خزانے ہمیشہ بھرے رہے۔ ٭  صدیوں پہلے دلی کا حسن کانگو لے نامی ایک بے روزگار نوجوان اپنے مرحوم باپ کے ایک دوست کے سفارشی خط پر حیدرآباد دکن پہنچا وہاں ہل چلانے کا کام ملا ۔ چند دن ہل چلانے کے بعد کھیت میں دبی ہوئی سونے چاندی سے بھری خزانہ نما کوئی دیگ دریافت ہوئی۔ ہند مالک نے پوچھا کہ اپنے اتنے برے معاشی حالات میں تم یہ دیگ لے کر بھاگ کیوں نہیں گئے ۔ حسن کانگولے نے جواب دیا کہ بیلوں کی جوڑی ، ہل ، کھیت ، کھیت میں دیگ اور میری نوکری سب کچھ آ پ کا ہی تھا میں اس کا مالک نہ تھا میں دنیا سے جا کے آگے کیا جواب دونگا۔؟ اتنی ایمانداری، قابلیت فرض شناسی جوابدہی کا خوف ۔ ہندومالک بہمن جادریالرزاٹھا ۔ اگلے دن دربار میں جا کر بادشاہ سے اتنے قابل بندے کا تذکرہ کیا اور بادشاہ دکن نے اپنے آوے کا آوا بگڑے ہوئے مختلف محکمہ جات پر حسن کانگو لے کو وزارت خزانہ کے منصب پرفائز کیا اوروہ وقت کے ساتھ ترقی کرتا ہوا دکن کا حکمران بنا( 1374تا 1529 )اس کی اولاد تقریباََ 155سال دکن پر حکومت کرتی رہی ۔ مودی کے برسر اقتدار آنے پر ہندوئوں کی حرکتیں بھی دیکھیں اور مسلمانون کی احسان شناسی دیکھیں کہ وہ اگرچہ حسن کانگولے مسلمان تھا لیکن لیکن حسن کانگو لے اور اس کی اولاد اتنے طویل عرصے تک کی حکومت اپنے ہندو محسن بہمن جادویہ کے نام سے ہی موسوم رہی ٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کی حکومت کو جس انداز سے ختم کروایا گیا وہ ایک ریکارڈ ہے اور رہے گا ۔ اس سے بڑا ریکارڈ وہ تباہی ہے جو تبدیلی کے نام پر پونے چار سال میں ملک کی تقدیر سے کھیلا گیا ۔ جس چیز نے قوم کے حوصلوں کو جوان رکھا وہ یہی تلقین تھی کہ آپ نے "گھبرانا" نہیں ہیـ"شاید یہی وجہ ہے کہ قوم کے کچھ طبقوں نے گھبرانے کی اجازت مانگنی شروع کر دی تھی ۔ بحرحال اب جو بھی ہے سب دیکھ رہے ہیں کہ آمدہ نگرانوں کے نام پر نئی مردم شماری ، پرانی مردم شماری ، پرانی حلقہ بندیاں ، نئی حلقہ بندیاں پورے سسٹم میں ایک عجیب و غریب ہڑ بونگ برپا ہے سمجھ نہیں آتی کہ انتخابات کیسے ہونگے / ستمبر میں پچھلے سال کے مقابلے میں بھی بڑے سیلاب کی آمد متوقع ہے / تین ماہ بعد شمالی علاقہ جات برفانی علاقوں میں ڈھل جاتے ہیں نئی مردم شماری پر پر انی حلقہ بندیاں ناکام ثابت ہونگی /جبکہ نئی حلقہ  بندیاں چھ ماہ کا کام ہے ۔ میری نظر میں تمام معاملات کو نظر میں رکھنے پر الیکشن اگلا بجٹ پیش ہونے کے بعد یعنی جون /جولائی 2024میںہی ممکن نظر آتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں وزیراعظم میاں شہباز زشریف صاحب نے تقریباََ 16ماہ میں بہت مشکل ترین حالات میں انتھک محنت سے حکومت کو سنبھالا دیا ہے جبکہ ملک ڈیفالٹ کے تقریباََ کنارے پر پہنچ چکا تھا ۔ اس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کو کوششوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں بڑے مشکل حالات سے ملک کچھ پٹڑی پر ڈالا گیا ہے اور موجودہ حکومت سے التماس کرتا ہوں کہ نگراں دور میں بھی موجود حکومت کی معاشی پالیسی کے تسلسل کے لئے نگران دور میں اسحاق ڈار کو ہی وزیر خزانہ برقرار رکھا جائے کہیں ایسا نہ ہو سابقہ دور کی طرح انتہائی اہم ترین وزارت خزانہ بھی نامناسب تقرریوں کی زد میں آ جائے جوکہ وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار حکومت کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دے اور نگران دور میں لوگ "گھبرانے" کی اجازت مانگنے کی بجائے "بے ہو ش" ہونے کی اجازت مانگنا شروع کر دیں ۔

ای پیپر دی نیشن