نفاق رکھنا مومن کی شان نہیں

مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
’’حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔ وہ چاروں عادتیں یہ ہیں کہ جب اس کو کسی امانت کا امین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب باتیں کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اورجب کسی سے جھگڑا اور اختلاف ہو تو بدزبانی کرے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
 نفاق رکھنا  انسان کی جس بدترین حالت کا نام ہے وہ تو یہ ہے کہ آدمی نے دل سے تو اسلام قبول نہ کیا ہو (بلکہ دل سے اس کامنکر اور مخالف ہو) لیکن کسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مؤمن مسلم ظاہر کرتا ہو جیسا کہ رسول اللہؐ کے زمانہ میں عبداللہ بن ابی وغیرہ مشہور منافقین کا  جیتا جاگتا منافقانہ کردار تھا، یہ نفاق دراصل بدترین اور ذلیل ترین قسم کا کفر ہے اور ان ہی منافقین کے بارہ میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ المنافقین فی الدرک الا سفل من النار ضرور بالضرور یہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ڈالے جائیں گے۔ لیکن بعض بری عادتیں اور بد خصلتیں بھی ایسی ہیں جن کو ان منافقین سے خاص نسبت اور مناسبت ہے اور وہ دراصل ان ہی کی عادتیں اور خصلتیں ہیں اور کسی صاحب ایمان میں ان کی پرچھائیں بھی نہیں ہونی چاہیے۔
اگر بدقسمتی سے کسی مسلمان میں ان میں سے کوئی عادت ہو تو یہ سمجھا جائے گا  کہ اس میں یہ منافقانہ عادت ہے اور اگر کسی میں بدبختی سے منافقوں والی وہ ساری عادتیں جمع ہو جائیں تو سمجھا جائے گا کہ وہ شخص اپنے کردار میں پورا منافق ہے۔ الغرض ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا نفاق ہے، جو کفر کی بدترین قسم ہے، لیکن اس کے علاوہ کسی شخص کے کردار کا منافقوں والا کردار ہونا بھی ایک قسم کا نفاق ہے، مگر وہ عقیدے کا نہیں بلکہ سیرت اور کردار کا نفاق ہے، اور ایک مسلمان کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ کفر و شرک اور اعتقادی نفاق کی نجاست سے بچے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ منافقانہ کردار اور منافقانہ اعمال و اخلاق کی گندگی سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔
اس حدیث میں رسول اللہؐ نے خصائل نفاق میں سے چار کا ذکر فرمایا ہے۔ (1) خیانت، (2) جھوٹ، (3) عہد شکنی، (۴) بدزبانی اور ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو اس کو سمجھنا چاہیے کہ اس میں منافقانہ خصلت ہے اور جس میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہوں وہ اپنے کردار میں خالص منافق ہے۔
ان عادات کے علاوہ اور بھی منافقانہ عادات کا تذکرہ نبی کریمؐنے فرمایا ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے کبھی جہاد کیا اور نہ اپنے جی میں اس کی تجویزیں سوچیں اور نہ تمنا کی، تو وہ نفاق کی ایک صفت پر مرا۔ یعنی ایسی زندگی جس میں دعوائے ایمان کے باوجود نہ کبھی راہِ خدا میں جہاد کی نوبت آئے اور نہ دل میں اس کا شوق اور اس کی تمنا ہو، یہ منافقوں کی زندگی ہے اور جو اسی حال میں اس دنیا سے جائے گا وہ نفاق کی ایک صفت کے ساتھ جائے گا۔
 حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ یہ تو منافق والی نماز ہے کہ بے پروائی سے بیٹھا آفتاب کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ زرد ہو گیا اور اس کے غروب ہونے کا وقت قریب آگیا تو نماز کو کھڑا ہوا اور چڑیا کی طرح چار چونچیں مار کے ختم کر دی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی اس میں بہت تھوڑا کیا۔مطلب یہ ہے کہ مومن کی شان تو یہ ہے کہ شوق کی بے چینی سے نماز کے وقت کا منتظر رہے، اور جب وقت آئے تو خوشی اور مستعدی سے نماز کے لیے کھڑا ہو اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس وقت مجھے مالک الملک کے دربارعالی کی حضوری نصیب ہے، پورے اطمینان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے، اور قیام و قعود اور رکوع و سجود میں خوب اللہ تعالیٰ کو یاد کرے، اور اس سے اپنے دل کو شاد کرے، لیکن منافقوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نماز ان کے لیے ایک بوجھ ہوتی ہے، وقت جانے پر بھی اس کو ٹالتے رہتے ہیں، مثلاً عصر کی نماز کے لیے اس وقت اٹھتے ہیں، جب سورج بالکل ڈوبنے کے قریب ہو جاتا ہے، اور بس چڑیا کی سی چار چونچیں مار کر نماز پوری کر دیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا نام بھی بس برائے نام ہی لیتے ہیں، پس یہ نماز منافق کی نماز اور جو کوئی ایسی نماز پڑھتا ہے وہ مخلص مومنوں والی نہیں، بلکہ منافقوں والی نماز پڑھتا ہے۔
حضرت عثمان بن عفانؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا جو شخص مسجد میں ہو، اور اذان ہو جائے اور وہ اس کے بعد بھی بلا کسی خاص ضرورت کے مسجد سے باہر چلا جائے اور نماز میں شرکت کے لیے واپسی کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو، تو وہ منافق ہے۔
حضرت عثمان بن عفانؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جو شخص مسجد میں ہو اور اذان ہو جائے اور وہ اس کے بعد بھی بلا کسی خاص ضرورت کے مسجد سے باہر چلا جائے اور نماز میں شرکت کے لیے واپسی کا ارادہ بھی رکھتا ہو، تو وہ منافق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ منافقانہ طرز عمل ہے، پس ایسا کرنے والا اگر عقیدے کا منافق نہیں ہے تو وہ منافق عمل ہے۔اللہ رب العزت ہم سب کو ایمان کاملہ اور اعمال صالحہ کی دولت سے نوازے اور ہر طرح کی منافقانہ عادات سے حفاظت فرمائے

ای پیپر دی نیشن