بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
سال قبل ایسی ساعتیں ، گھڑیاں اور لمحات تھے جب والد محتشم ڈاکٹر بشیر احمد گورایہ نے دارالفناءسے دارالبقاءکی طرف رخت سفر باندھا۔ 11 ذوالحجہ 1445 کووہ جنت مکیں ہوئے 17 اگست 2023ء سے اب تک کوئی صبح اور کوئی شام ایسی نہیں گزری جب والد مکرم کی یادوں کے چراغ روشن نہ ہوئے ہوں
بھائی بھائیاں دے دکھ ونڈا ون
بھائی بھائیاں دیا باواں
باپ سراں دے تاج محمد
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
ڈاکٹر بشیر احمد گورایہ عارضہ شوگر اور قلب کے مریض تو تھے ہی مگر یہ معلوم نہ تھا کہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اللہ پاک غریق رحمت کرے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت کا اعلی مقام بخشے آمین۔ ایک وقت وہ تھا جب ان کے بغیر حیات اور زندگی سے منسلک امور گزارا مشکل تھے اور آج خاندان اور اہل خاندان کو ان کے بنا زندگی گزارتے 365 دن ہوچکے۔ ڈاکٹر بشیر احمد گورایہ چلتا پھرتا پاکستان تھے وہ قائداعظم محمد علی جناح اور حضرت علامہ اقبال کے عاشق تھے ان کی پی ایچ ڈی شاعر مشرق کے افکار اور پیغامات پر مبنی تھی جب ہم پی ایچ ڈی کے جاں گسل لمحات سے گزرے تو پتہ چلا کہ والد صاحب نے شب روز کی مصروفیت کے باوجود تحقیق ومشاہدے کی کتنی منزلیں طے کیں۔ 23 مارچ 14 اگست، 21 اپریل، 9 نومبر، 25 دسمبر اور 11 ستمبر جیسے قومی دن وہ عقیدت واحتشام سے مناتے۔ قائداعظم ،مصور پاکستان اور پاکستان کے حوالے سے منعقدہ ایونٹ کے دعوت نامے بخوشی قبول کرتے اور ایسی تقاریب کا لازمی حصہ بنتے۔ وہ بانیان پاکستان کا تذکرہ کرتے اکثر جذباتی ہوجاتے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پانے کے لیے برصغیر کے مظلوم، مجبور اور مقہور مسلمانوں نے جان ومال کی جو قربانیاں دیں ان کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں نامکمن بھی ہے۔ قائداعظم کے ایک کروڑ محبان نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی۔ گورنمنٹ کالج آف کامرس راولپنڈی کے پروفیسر ابرار شاہ کے مطابق 14 اگست 1947 کو ان کے نانا نذیر بخاری اور والدہ کی ہمراہی میں قافلہ لدھیانہ سے 75 دن مسلسل سفر کرکے پاکستان پہنچا۔ کاررواں میں 350 خواتین اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے جن کی حفاظت نوجوانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کی۔ خواتین ، بچے اور بوڑھے ، بیل گاڑیوں پر جبکہ نوجوان پیدل چلتے۔ رات کو قافلہ پڑاو¿ کرتا اور صبح صادق کے بعد پاکستان کی طرف سفر عشق شروع ہو جاتا۔
والد صاحب ہمیں بتاتے کہ تحریک پاکستان کے ابتدائی دور میں جب مخالفین عظیم قائد سے پاکستان کے ممکنہ خدوخال اور مستقبل کی بابت سوال کرتے تھے تو آپ بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیتے ''یہ ہے پاکستان'' ڈاکٹر گورایہ صاحب نے ایک روز بتایا کہ بادشاہی مسجد دہلی سے محلق لال قلعے میں تقسیم برصغیر سے 9 یا 10 روز قبل بہت بڑا جلسہ ہوا۔ یہاں پٹیل ، گاندھی اور نہرو نے شورشرابے میں تقاریر کیں جب قائداعظم کے خطاب کی باری آئی تو آپ نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش ہونے کی اپیل کی جس کے بعد مجمع سے حیرت انگیز طور پر شور'' غائب'' ہوگیا اسی خطاب کے دوران ہندو طالب علم نے بانی پاکستان سے دو قومی نظریے کے بارے میں استفسار کیا ہے؟ آپ نے خطاب رو ک کر پانی طلب کیا!! جیسے ہی گلاس پیش ہوا تو قائداعظم نے چند گھونٹ پی کر بقیہ پانی سوال کرنے والے کو پینے کی فرمائش کی۔ ہندو طالب علم نے انکار کر دیا اگلے لمحے حضرت قائداعظم نے وہ پانی مسلم نوجوان کو دیا جس نے فوراً پی لیا۔ آپ نے نوجوان اور گلاس کی طرف پوری توجہ مبذول کراتے ہوئے جواب دیا ''یہ ہے دو قومی نظریہ '' کل ہی کی بات ہے 5 اگست 2024ءکو بنگلہ دیش میں ہونے والی عوامی بغاوت نے بھارت نواز شیخ حسینہ واجد حکومت کے پر خچے اڑا دئیے۔ مسلم ریاست کو بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑنا، پاکستان سے دشمنی رکھنا ، محبان قائداعظم پر سختی کے تیر چلانا اور جماعت اسلامی کے رہنماوں کو پھانسی دینا حسینہ واجد کو مہنگا پڑگیا۔ یہ دوسرا موقع ہے جب بنگالیوں نے محسن کے روپ میں مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا۔ سقوط ڈھاکہ کے تین برس بعد بنگالی فوج کے اہلکاروں نے بنگلہ دیش کے اولین صدر ''نام نہاد بابائے بنگلہ دیش ''شیخ مجیب الرحمان کے گھر دھاوا بولا اور گھر میں موجود ایک ایک فرد سے 1971 میں قائداعظم کا پاکستان دو لخت کرنے کا بدلہ لیا، اس انتقام کی لپیٹ میں شیخ مجیب کے خاندان کا دس سالہ بچہ بھی آگیا۔ حسینہ واجد اپنی بہن کے ساتھ برطانیہ میں ہونے کے باعث زندہ بچ گئیں …تاریخ کا سبق دیکھیں عوامی لیگ کی سربراہی حسینہ واجد کے پاس آئی وہ ایک ،دو اور تین بار وزارت عظمی کے عہدے پرآئیں مگر انہوں نے بھارت دوستی نہ چھوڑی۔ بھارتی سیاست دان یہاں تک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 1971 میں پاکستان توڑنے کا اعتراف کرتے رہے انہیں روکنے اور خاموش کرنے کی بجائے تالیاں بجا کر مودی کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا۔ بنگلہ دیش وزٹ کے دوران غیر معمولی تقریب پزیرائی میں مودی جی نے 16 دسمبر 1971 کا وہ پورٹریٹ بنگالی وزیراعظم حسینہ واجد کو پیش کیا جس میں پاکستان کے ہتھیار پر ڈالنے کا دلخراش منظر نمایاں تھا ،اسی تقریب ، تقریر اور دونوں وزرائے اعظم کی حرکات سے صرف پاکستانیوں کو ہی نہیں بنگالیوں کو بھی ٹھیس پہنچی۔ بالآخر 5 اگست 2024 کو عوامی لیگ اور حسینہ واجد عوامی انتقام کا نشانہ بن گئیں۔ وقت کا انصاف اور تاریخ کا بدلہ دیکھیں '' مقبول'' وزیراعظم کو بھارت فرار ہونا پڑا، وہ ایک دن مزید ڈھاکہ میں رہتیں تو 1974ءکا خونیں ری پلے دور نہ تھا۔ مجید امجد یاد آگئے
سیل رواں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت وکلا و تاج کے سب سلسلے گئے
مرحوم ڈاکٹر بشیر احمد گورایہ ہر محفل اور ہر مقام پر اکابرین کو کہتے رہے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے جذبے نئی نسل میں منتقل ہونا ضروری تھے۔ ہمارے ''بڑے ''اپنے فرائض ذمہ داری سے ادا نہیں کرسکے!! اب یہ آج کے اساتذہ کرام ،علماءکرام اور مشائخ عظام کی ڈیوٹی ہے کہ وہ نوجوان نسل کو پاکستان دوست ، اقبال اور جناح کا شیدائی بنائیں۔اللہ کریم شہدائے پاکستان کے درجات بلند کرے اور جو جو جس جس حیثیت میں وطن کی تعمیر وترقی اور خدمت میں حصہ لے رہا ہے ان کی ہر دم خیر ہو اجازت سے قبل قیوم ساقی کے ملی نغمے کا پہلا شعر پاکستان اور اہل پاکستان کی نذر
سوھنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبا د تجھ
جب تک سورج چاند ہے باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے