مسلم دنیا کی پہلی اور عالمی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کو دسمبر 1971ءمیں دو لخت کیا گیا تو ایک ہنگامہ برپا ہوا کہ بنگالیوں نے اپنی محرومیوں اور ناانصافیوں کا بدلہ لے کر جابر اور قوم دشمن پاکستان کے حکمرانوں کا ادھار چکا دیا میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کے لیے دوھرے معیار پر نالاں ہیں ،میں صدر یحی خان، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کو ملک توڑنے کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے، وسیلہ سمجھتا ہوں کیونکہ اس کی بنیاد صدر ایوب خان کے 10 سالہ دور اقتدار کے اقدامات تھے جس میں بنگالیوں کو بھوکا، نکما اور صرف کثرت اولاد کے حوالے سے طعنہ دیا جاتا تھا۔ ان سےتعلیمی مواقع چھینے گئے، روزگار کی بجائے انہیں پٹ سن اور چاول کے چکر میں گھن چکر بنایا گیا ، انہیں بارشوں اور طوفانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود 10 سالہ جشن منانے کے ساتھ اسلام آ باد سجاتے رہے لیکن حقیقی اقتدار کے مالک نے ہاتھ کھینچا اور صدر ایوب خان کے ایوان اقتدار میں فرعونیت سے نبرد آ زمائی کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو نئی سوچ عطا کر دی جس کے رد عمل میں صدر ایوب کو حکومت اسی طرح چھوڑنی پڑی ، جیسے قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے ایوب خان کو سیاست میں دلچسپی لینے پر ،،بے وردی،، کر کے بطور سزا مشرقی پاکستان بھیج دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ” کبے“ کو لات راس آ گئی۔ اس نے بنگالیوں کو بہت قریب سے دیکھا اور پھر اپنی خواہش اقتدار پوری ہونے پر ان کا مکمل استحصال کر کے نفرت کی فصل بودی ،جسے بھارت نے بڑی مکاری اور چالاکی سے استعمال کیا۔ پھر بھارت نوا زوں نے خوب تماشہ بنایا اور سازش ،،مکتی باھنی،، کی صورت میں پاکستان اور افواج پاکستان کے مد مقابل آ ن کھڑی ہوئی، دوسری طرف اگر تحریک پاکستان اور جنرل صدر ایوب خان کے صدارتی الیکشن کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو یہ راز بھی فاش ہو جائے گا کہ دونوں ادوار میں بنگالیوں کا انتہائی اہم کردار تھا اگر قرارداد پاکستان کا جلسہ دیکھیں تو شیر بنگال مولوی فضل الحق اہم ترین، اسی طرح آ مریت کی جنگ میں ایوب خان کے مد مقابل مادر ملت فاطمہ جناح کے چیف پولنگ ایجنٹ نہ صرف شیخ مجیب الرحمن بلکہ آ ج کی سیاست کے تمام سرخیل مادر ملت کے مخالفین کی اولادیں ہیں، جماعت اسلامی، اے۔این۔ پی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے قائد کی ہمشیرہ کا ساتھ دیا اور مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے محترمہ کو زیادہ ووٹ دیئے۔ بعد ازاں آ مرانہ سختی اور غیر مناسب فیصلوں نے بنگالیوں کو مزید ناراض کر دیا، بھارت نے اپنی مکاری میں جلتی پر تیل بھی ڈالا۔
بنگالی بنیادی طور پر دھرتی پرست ہیں پاکستان کے خلاف بنگالیوں نے سازش نہیں کی، صرف بھارت نوازی اور غلط اقدامات نے انہیں،، مس گائیڈ،، کیا۔ مستحکم پاکستان سے دنیا بھی خوفزدہ تھی اور اب بھی ہے کہ بھوکوں، ننگوں نے”ایٹم بم“ کیسے بنا لیا؟ اگر ان کی فکر نہ کی گئی تو یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ اسی خوف میں عالمی سازش اور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے ایٹمی پاکستان کا نظریہ دینے والے کو سی آئی اے کی خواہش پر تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، ذرا سوچیں کہ اگر بنگالی پاکستان سے آ زادی چاہتے تھے تو انہوں نے 17۔ اگست 1975 کو اپنے،، بنگو بندھو" شیخ مجیب الرحمن کو اہل خانہ سمیت کیوں مار دیا ؟یہی نہیں نئے حکمران خوندکر مشتاق نے اس معرکہ آ رائی کرنے والوں کی پذیرائی بھی کی ،وہاں تین مرتبہ مارشل لا لگا لیکن عبوری جوڈیشل حکومت کے بعد 2009ءمیں حسینہ واجد دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں تو انہوں نے پہلے اقتدار میں جو کچھ نہیں کیا وہ کر دکھایا کیونکہ اس مرتبہ فوج، عدلیہ اور عوامی لیگ کی مضبوط کنٹرول جمہوریت تھی۔ انہوں نے پاکستان کا پرچم بلند کرنے والے بہاریوں کو ہی نہیں، پاکستان کو ٹکڑے ہونے سے بچانے والوں کو بھی چن چن کر جیل اور پھانسی کی سزا دی ،پاکستان دوست وزیراعظم خالدہ ضیا کو قید و بند میں رکھا۔ قوم کو راضی رکھنے کے لیے حسینہ واجد نے بنگالیوں کو بارش اور طوفانوں سے بچایا بلکہ معاشی ترقی کی راہ بھی ہموار کی۔ ہمیں بھی بنگلہ دیش جمہوری ماڈل کے اشارے دیے گئے۔ سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری اپوزیشن رہنماو¿ں کو 10 سے 15 سال انتظار کا مشورہ دیتے رہے لیکن مستقبل کا حال صرف حقیقی اقتدار اعلی جانتا ہے۔ حسینہ واجد کو بھی خوش فہمی تھی کہ اب وہ طاقتور ہو چکی ہیں۔ نیا نیا الیکشن جیت کر بھاری مینڈیٹ کے نشے میں تھیں ملازمتوں کا،، کوٹہ سسٹم،، متعارف کرا کے 50 فیصد نوکریاں 1971ءکے شہداء اور رضاکار،، مکتی باہنی،، کے سرکردہ خاندانوں کے نام کر دیں، اسی بہانے سے نفرت اور ناانصافی کا ،،لاوا ،،پھٹا فوج کو حکم دیا گیا کہ مظاہرین دہشت گردوں کو مار دیا جائے لیکن اپنے مقررکردہ سپہ سالار جنرل وقار الزمان نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ صرف 45 منٹ میں استعفیٰ اور ملک چھوڑنے کا کہہ دیا۔ خود عوام اور طلباءکے ساتھ کھڑے ہو گئے کہ ”یہ وطن ہمارا ہے تمہارا نہیں “ بنگالیوں نے اس سے بڑا کام یہ کیا کہ پاکستان کے تمام مخالفین اور دشمنوں کی یادگاریں بھی گرا کر ثابت کر دیا کہ حالات کچھ بھی ہوں، جائیدادوں کے بٹوارے بھی کیوں نہ ہو جائیں، بھائی بھائی ہی رہتے ہیں ،قومی یادگاروں کو منہدم کرنا یقینا قابل مذمت ہے لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ آ زادی کے نام پر ملک توڑنے اور سبز باغ دکھا کر بھارت نوازی کے دکھ نے بنگالیوں کے دلوں میں نفرت کو جنم دیا انہوں نے بھی برابری کا رد عمل ظاہر کر کے بتا دیا کہ ہم نے ہمیشہ جمہوریت، قوم اور دھرتی سے وفا کی ہے لہذا دھوکے بازوں اور غیر ملکی ایجنڈوں پر کام کرنے والوں کی کوئی جگہ نہیں” یہ وطن ہمارا ہے تمہارا نہیں“ تم جاو¿ اپنے آ قاو¿ں کے پاس جن کے اشارے پر قوم پر جبر کا نظام قائم کر رکھا تھا لیکن بدقسمتی سے حسینہ واجد کو وہاں سے بھی صاف جواب مل گیا۔ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو سبق سیکھنے کی عادت نہیں، لیکن حالات اور نادان دشمن کی موجودگی میں خوف ضرور محسوس کرنا ہوگا تاکہ کچھ بہتر کر کے مشکلات اور نئے بحران سے بچا جا سکے ،دعا ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی خواہش پر قائم ہونے والی عبوری حکومت نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں ایسی جمہوریت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے جس میں بنگالی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائیں، بہاریوں سمیت پاکستان کے تمام نام لیوا سیاستدانوں کو سکھ اور چین سے قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع مل جائے اور پاک بنگلہ دیش تعلقات بھی ایسے استوار یوں جیسے دو برادر ممالک کے ہوتے ہیں۔