زمانہ بہت بے رحم ہے ۔بڑے بڑوں کی قربانیوں کو فراموش کردیتا ہے ۔ میرے عزیز اور محترم دوست محمد سعید اظہر خان مرحوم نے روزنامہ ” جنگ“ میں ایک کالم لکھاتھا جس میں اس امر پر گہرے افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے جن شخصیات نے بڑی قربانیاں دیں پیپلز پارٹی نے انہیں اپنے حافظے کی لوح سے اس طرح مٹا دیا ہے جیسے وہ لوگ کبھی تھے ہی نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جناب سعید اظہر نے جن لوگوں کے اسمائے گرامی اس فہرست میں شامل کئے ہیں ان میں قاضی غیاث الدین جانباز کا نام شامل نہیں ہے اور مجھے اگرچہ کسی دور میں بھی پیپلز پارٹی سے کوئی ہمدردی نہیں رہی مگر اس کے باوجود میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قاضی غیاث الدین جانباز کے تذکرے کے بغیر پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی اور مکمل نہیں کہلاسکتی ، میں یہ بات محض اس لئے نہیں کہہ رہا کہ جانباز صاحب میرے تایا زاد بھائی اور میرے سمدھی تھے بلکہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں ان کی قربانیوں کی تاریخ کا چشم دید گواہ ہوں۔ جانباز صاحب میرے تایا اور جماعت اسلامی کے رکن قاضی نصیر الدین سرہندی کے اکلوتے صاحبزادے تھے ۔ ہمارے تایا پاکستان بننے کے بعد جلد ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ڈیرہ غازی خان چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں گذارا ،اس وقت جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر نذیر احمد شہید کی سیاسی زندگی کا ابتدائی دور تھا ۔ میرے تایا ڈاکٹر صاحب کے اخلاق و کردار سے بہت متاثر ہوئے اور یہی چیز انہیں جماعت اسلامی کے قریب لے گئی ۔
کچھ عرصہ ڈیرہ غازی خاں میں گزارنے کے بعد وہ کراچی چلے گئے اور بندر روڈ پر نیو کلاتھ مارکیٹ میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا، یہاں بھی اتفاق سے وہ رنچھوڑ لائن میں جس جگہ رہائش پذیر ہوئے اس کے قریب ہی جماعت اسلامی کے ایک رہنما سید ا سعد گیلانی سکونت پذیر تھے ۔ اسعدگیلانی اپنا ایک تیز و تندسات روزہ ”جہانِ نو “ کے نام سے نکالتے تھے ۔ میرے تایا اسعد گیلانی صاحب کی لگن، محنت اور جرا¿ت و بے باکی سے بہت متاثر ہوئے اور انہوںنے نہ صرف”جہانِ نو“ مجھے بھجوانا شروع کردیا بلکہ جب وہ کراچی سے ٹوبہ ٹیک سنگھ لوٹے تو انہوںنے اپنے بیٹے قاضی غیاث الدین کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ”جہانِ نو“ کا ایجنٹ اور نمائندہ مقرر کرادیا ، جانباز صاحب اور میں ڈی بی ہائی سکول ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک اکٹھے پڑھتے رہے ،میںآئے روز اپنا قلمی نام تبدیل کرتا رہا اور وہ قاضی غیاث الدین کے قاضی غیاث الدین ہی رہے ، جانباز تخلص بھی پہلے میں نے اختیار کیا، جانباز قاضی بنا اور جب میں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ قاضی غیاث الدین جانباز ہوگئے ۔ ہم اسلامی جمعیت طلبہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے ۔ جماعت اسلامی کے جلسوں میں ڈیوٹیاں انجام دیتے رہے اور جانباز صاحب سیاست و صحافت سے بظاہر دُور دُور رہنے کے باوجود اس کوشش میں رہے کہ بحیثیت نامہ نگار جو اخبارمیں چھوڑ تا جاﺅں وہ اس کے نمائندے بنتے جائیں ۔
جب میں نے 1958ءمیں ٹوبہ ٹیک سنگھ چھوڑا تو میں وہاں پاکستان ٹائمز اورامروز کا نامہ نگار تھا اور ساتھ ہی پی پی ایل کے مالک میاں افتخار الدین کی آزادپاکستان پارٹی کا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پبلسٹی سیکرٹری تھا ۔ میرے بعد انہوںنے پنجاب ،بہاولپور کسان کمیٹی کے رہنما چوہدری فتح محمد سے رابطہ کیا اور ان کی کوشش اور سفارش سے وہ” پاکستان ٹائمز“ اور ”امروز “کے نمائندے مقرر کردیئے گئے، یہیں سے ان کی نیشنل عوامی پارٹی سے وابستگی کی ابتدا ءہوئی۔ میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی بھی نیپ میں شامل ہوکر اس کا حصہ بن چکی تھی۔ جانباز صاحب غلہ منڈی میں اپنے والد کی کھل بنولہ کی دکان پر کام کرتے تھے اور سیاسی داﺅ پیچ بھی لڑاتے تھے، ایسے میں ایک مرحلے پر ان کی ہمارے ایک پڑوسی اختر علوی سے بد مزگی ہوگئی حالانکہ وہ جماعت اسلامی کے متفق اور میرے تایا کے حلقہ احباب میں شامل تھے ۔ اختر علوی نے اس بات کو زیادہ بڑھا دیا اور جانباز صاحب کے خلاف قاتلانہ حملے کا ایک مقدمہ تھانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں درج کرادیا۔ جس پر پولیس نے اپنے روایتی طریقے سے ایک ریوالور بھی برآمد کرکے ان کے کھاتے میں ڈال دیا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ہمارے سارے ہی خاندان کو اس بات سے سخت پریشانی ہوئی مگر میرے تایا اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئے ۔ میں ان دنوں سرگودھا میں تھا جہاں سے مصطفی صادق صاحب اور میں روز نامہ ”وفاق“ نکال رہے تھے ۔ مجھے معلوم ہوا کہ جانباز صاحب کی درخواست ضمانت جن مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو نا ہے وہ ڈسٹرکٹ بار ایسو سی ایشن سرگودھا کے صدر سید غضنفر علی شاہ بخاری کے شاگرد ہیں۔
مصطفی صادق اور میں بخاری صاحب سے جا کر ملے اور انہیں جانباز صاحب کی بے گناہی کی داستان سنائی، وہ اپنے شاگرد کے نام ایک خط دینے پر بخوشی آمادہ ہوگئے ۔ میں یہ خط لے کر راتوں رات ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچا اور صبح کچہری میں جا کر ان مجسٹریٹ صاحب سے ملا اور انہیں سید غضنفر علی بخاری کا خط دیا ۔ انہوںنے خط پڑھتے ہی مجھے کہا کہ جانباز نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ساری انتظامیہ کا ناک میں دم کررکھا ہے اور میں اس کی ضمانت نہیں لوں گا ۔ میں ان کو جانباز صاحب کی بے گناہی کا یقین دلاتا رہا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے، چند گھنٹوں بعد انہوںنے درخواست ضمانت مسترد کردی۔ میرے تایا درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد لاہور چلے گئے اور وہاں ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی لیکن وہاں بھی کوئی شنوائی نہ ہوسکی ۔ میرے تایا ناکام اور مایوس ٹوبہ ٹیک سنگھ لوٹے اور آتے ہی انہیں شدید بخارنے آلیا۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔ وہ چند روز بیماررہے اور پھر جانباز صاحب کی جیل یاترا کا غم لئے اس دنیا سے کُوچ کرگئے۔ جانباز صاحب کی ضمانت اور رہائی ان کے انتقال سے اگلے روز ہوئی، یہ تھی پاکستان پیپلز پارٹی کے اس مرحوم رہنماکی سیاست کی ابتدا۔
میں چاہتا تھا کہ وہ سیاست چھوڑ دیں، اس مقصد کیلئے ہم نے1964ءمیںلائل پور سے روز نامہ” وفاق“ کے ایک ایڈیشن کا اجراءکیا اور جانباز صاحب کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور لے گئے ۔ ہمارا اخبار صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی حمایت کر رہا تھا مگر جانباز صاحب نے ”وفاق“ کے لائل پور ایڈیشن کو محترمہ فاطمہ جناح کا ترجمان بنا دیا۔ اس بنا پر یہ نیا تعلق نبھ نہ سکا اور جانباز صاحب پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ چلے گئے ۔ ان کی سر گرم سیاست اس وقت بر سر پیکار ہوئی جب انہوںنے 23 مارچ1970 ءکو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی زیرصدارت شہرہ آفاق کسان کانفرنس منعقد کی، چوہدری فتح محمد نے جو اس علاقے کے معروف ترقی پسند رہنماہیں جانباز صاحب کی یاد میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کانفرنس کے لئے مقرر کردہ کمیٹی کے سیکرٹری اطلاعات تھے لیکن ان کی قائدانہ صلاحیتوں نے انہیں اس کانفرنس کے موقع پر ایک بڑے ترقی پسند قائد اور دانش ور کی حیثیت سے ابھرنے میں مدد دی ۔ جانباز صاحب نے اسکے بعد لاہور کا رُخ کیا اور یہاں داتا دربار مارکیٹ سے سات روزہ ”سنگرام“ کا اجراءکیا۔ (جاری)
نگرام بنگلہ زبان کا لفظ ہے اور یہ جدوجہد اور تحریک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جب کسان کانفرنس کے موقع پر لاہور ریلوے سٹیشن سے شرکا کو ٹوبہ ٹیک سنگھ لے جانے کے لئے ایک سپیشل ٹرین روانہ ہوئی تویہ منظر دیکھنے میں بھی وہاں گیا ۔ اس موقع پر جو نعرے سنائی دیئے ان میں یہ نعرہ بھی شامل تھا ۔” چُولبے چُولبے سنگرام چُولبے “ غالباً ایسے ہی نعروں سے متاثر ہو کر انہوں نے اخبار کا نام” سنگرام “تجویز کیا ۔ یہ جلد ہی ترقی پسندوں، سامراج دشمنوں اور جبرو استحصال کی قوتوں کے خلاف صف آرا عناصر کا نظریاتی مرکز بن گیا۔ لیکن جیسا کہ ہوتا آیا ہے کہ فکری اور نظریاتی اخبار اور اخباری ادارے ان وسائل سے محروم رہتے ہیں جو ان اداروں کی بقاکے لئے ضروری اور ناگزیر ہیں اور جانباز صاحب کو بھی کچھ عرصہ بعد” سنگرام“ بند کردینا پڑا۔ وہ ایک نئے نکلنے والے انگریزی روز نامہ ”دی سن“کے نامہ نگار ہوگئے اور پھر جب ” مسلم“نکلا تو اس کے نمائندے بن گئے ۔ اور پھر کچھ عرصہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہی ” ڈان“ کے بھی نمائندے رہے پھر پیپلز پارٹی کے سرکاری ترجمان روزنامہ ”مساوات“ کے نامہ نگار، اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوگئے اور جب بھٹو صاحب پر ابتلا کا دور آیا تو وہ میدان میں کُود پڑے۔ انہوںنے پُورا پنجاب، پُورا سندھ، اور پُورا سرحد کھنگال مارا جگہ جگہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کو لیکچر دیئے اور انہیں عملی جدوجہد پر ابھارا ۔ یہیں سے ان کی لامتناہی گرفتاریوں کا وہ دور شروع ہوتا ہے جب ضیاءالحق حکومت انہیں کسی ایک مقدمے میں گرفتار کرتی تھی اور جب ان کی رہائی کا مرحلہ آتا تھا تو جیل کے صدر دروازے سے باہر آتے ہی انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا جاتا تھا۔ لاہور میں ان کے خلاف مغل پورہ بم کیس کے حوالے سے ایک مقدمہ درج کیا گیا تو وہ زیر زمین چلے گئے اور کچھ وقت سمن آبادمیرے گھر پر بھی گزارا ۔ وہ پیپلز پارٹی کے جیالے اور میں پارٹی کا سخت مخالف، مگر ہم آپس میں سیاست پر کوئی بات نہیں کرتے تھے اور میں نے اپنی مرحومہ اہلیہ سے کہہ دیا تھا کہ یہ اپنی مرضی سے یہاں آئے ہیں اور اپنی ہی مرضی سے جائیں گے لیکن جانبا ز صاحب بھی خوب شخص تھے۔ وہ ایک روز گھر سے شاہ دین بلڈنگ میں” وفاق“ کے دفتر آگئے، انہیں میرے کمرے میں دیکھ کر مصطفی صادق صاحب بھی یہیں آپہنچے اور جانباز کو دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ تو گرفتار ہوں گے ہی مگر ساتھ ہی اسے بھی (مجھے بھی )لے جائیں گے۔ قومی اتحاد کی تحریک کے باعث” وفاق“ کے دفتر کے باہر خفیہ پولیس والوں کا بہت آنا جانا تھا ۔ میں اخبار کے ڈیکلریشن کے سلسلے میں ایک مرتبہ رابرٹ کلب گیا تھا جو لاہور میں خفیہ پولیس کا ہیڈ کوارٹرہے ،وہاں میں نے بعض ایسے لوگوںکو دیکھا جو داڑھی، رومال اور ٹوپی کے باعت جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اسلامی کے اکثرکارکن دکھائی دیتے تھے، پھر قومی اتحاد کی تحریک کے زمانے میں ایسے ہی چہرے” وفاق“ کے دفتر کی سیڑھیوں اور شاہ دین بلڈنگ کی بالکونیوں میں دیکھے جانے لگے ۔
جانباز صاحب ” وفاق“ کے دفتر سے نکل کر شاہراہ قائد اعظم پر جارہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔ انہوں نے کم و بیش دس برس ضیاءالحق حکومت کی جیلوں میں گزارے، ان کی آخری رہائی جناب نثار عثمانی مرحوم کی کوششوں کی مرہون ِمنت ہے جنہوںنے اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی سے جانباز کے صحافی ہونے کے ناطے ان کی رہائی کی سفارش کی اور انہیں کے دفتر سے فون کرکے مجھے آگاہ کیا کہ جنرل جیلانی نے یہ احکام دے دیئے ہیں کہ جانباز کوآئندہ کسی مقدمے میں ان کی پیشگی اجازت کے بغیر گرفتار نہ کیا جائے اور مجھے بتایا کہ سرگودھا جیل میں ان کی رہائی کے احکام پہنچ چکے ہیں اور میں ان کے داماد طارق سعید اور بیٹے عارف غیاث سے یہ کہوں کہ وہ سر گودھا جیل جا کر ان کو اپنے ساتھ لے آئیں، اس طرح ان کی پے درپے گرفتاریوں کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا ۔انہوںنے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے کئی انتخاب لڑے۔ ضیاءالحق کے بیٹے اعجاز الحق کا مقابلہ کیا اور 64 ہزار ووٹ لئے ۔ پھر صوبائی نشست پر جنرل ضیاءالحق کے دوسرے بیٹے انوارالحق کا مقابلہ کیا لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بنی۔ انہوںنے ضلع ناظم کا الیکشن بھی لڑا ،سب سے زیادہ ووٹ لئے لیکن حکومت نے ضلع ناظم کے لئے 51 فیصد ووٹ لازماً لینے کی شرط عائد کرکے ان کی کامیابی کو پھر غیر مو¿ثر کر دیا۔ بے نظیر کے دور حکومت میں جب وہ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن تھے، کئی بار انہوںنے جانبازی کا مظاہرہ کیا اور بے نظیر بھٹو کی موجودگی میں ان کے اقدامات پر نکتہ چینی کا جرم کرتے رہے اور پھر ایک اجلاس میں بے نظیر بھٹو نے ان سے یہ کہہ دیا کہ جانباز صاحب آج آپ سے آخری ملاقات ہے، اس کے بعد کچھ عرصہ وہ فاروق لغاری کی پاکستان ملت پارٹی سے وابستہ رہے اور پھر یہ سیاسی وابستگی ترک کرکے مولانا محمد اکرم اعوان کی تنظیم الاخوان میں شرکت اختیار کرلی، جیل کے عرصے میں درود شریف کا ورد ان کا شیوہ ¿جان ہوگیا اور پھر تسبیح ہاتھ میں آگئی، داڑھی بڑھنے لگی اور وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے جو انہیں ان کے والد سے جوایک نہایت متقی ، پرہیز گار اور اللہ والے شخص تھے ورثہ میں ملی تھی، جانباز صاحب میرے سمدھی تھے ۔ میری دو بیٹیاں نورین اور فرحین ان کے بیٹوں عارف غیاث اور آصف غیاث سے بیاہی ہوئی تھیں۔ بڑی بیٹی 2000ءمیں کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد تین بچے چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہوگئی، جانباز صاحب نے اپنی علالت کے آخری ایام ٹیک سوسائٹی میں ہمارے گھر کے قریب واقع ڈاکٹر ز ہسپتال میں گذارے۔ ایک روز انہوںنے خواہش ظاہرکی کہ وہ تجارت و جرا¿ت کے نئے دفاتر جو ابھی زیر تعمیر تھے دیکھنا چاہتے ہیں، علالت نے انہیں بہت کمزور کردیا تھا ،وہ چل پھر نہیں سکتے تھے اور ان کے لئے سیڑھیاں چڑھنامشکل ہی نہیں ناممکن تھا لیکن ان کی ضد کے سامنے کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی اور وہ کار میں ڈیوس روڈ پر پہنچے اور ان کے داماد نے ان کواپنے ہاتھوں میں اٹھا کر دفتر کی عمارت دکھائی تو وہ بہت ہی خوش ہوئے اور واپس ہسپتال پہنچ کر بستر سے ایسے لگے کہ پھر موت کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہی بنی ۔ جانباز صاحب کو آخری آرام گاہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قبرستان میں اُسی جگہ نصیب ہوئی جہاں ہمارے دادا اور والدین کی قبریں ہیں، یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس قبرستان میں ایک مجذوب آکر ٹھہرا، پہلے تو وہ قبروں کے مابین گھومتا پھرتا تھا پھر اس نے ایک وہاں چار دیواری کھڑی کرکے ایک مزار نما احاطہ بنا لیا اور اس پر جھنڈے لہرانے لگے ۔یہ مجذوب یہ سب کچھ کرکے یہاں سے چلا گیا۔ جب وہ اس قبرستان میں رہتا تھا اور جانباز صاحب کسی جنازے میں شرکت کے لئے وہاں جاتے تو وہ انہیں ابا جی کہہ کر بُلا تا اور جانباز صاحب بھی انہیں اپنے گھر بُلا کر بڑے اشتیاق سے کھانا کھلاتے۔ اس کے منہہ سے رالیں ٹپک رہی ہوتی تھیں اور یہ خود اس کے منہہ میں نوالے ڈالتے تھے۔ انتقال سے چند روز پہلے جانباز صاحب نے خواب دیکھا کہ وہ مجذوب ان سے کہہ رہا ہے کہ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں آپ آئیں اور میرے پاس ہی ٹھہریں، جانباز صاحب کو ابدی آرام گاہ اسی مزار نما احاطے میں ملی۔
مﺅقر انگریزی روز نامہ ”ڈان“ نے غیاث الدین جانباز کے انتقال پر ایک تعزیتی رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ صحافت پلٹ سیاست دان قاضی غیاث الدین جانباز کو سپرد خاک کردیا گیا ۔ ان کا گزشتہ روز 73 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا ۔ جانباز کی موت پر سوگ کے لئے سارا شہر بند رہا اور جب تک نماز جنازہ ادا نہیں کردی گئی کسی شخص نے اپنی دکان نہیں کھولی ان کی نماز جنازہ میں حاضری کا منظر بھی دیدنی تھا ۔ شریک ہونے والوں میں سابق صوبائی وزیر حاجی محمد اسحاق ، ایم این اے جنید انور، سابق ارکان صوبائی اسمبلی میاں محمد رفیق۔ چوہدری نسیم احمد اور جاوید اکرم، عوامی ورکرز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فاروق طارق، عوامی نیشنل پارٹی کے رانا لیاقت علی، مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر جناب حمزہ کے صاحبزادے اسامہ حمزہ، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نذیر رضا ، سیکرٹری جنرل عبدالمنعم اوتل، سابق ضلع ناظم اور ایم این اے چوہدری عبدالستار اور چوہدری محمد اشفاق ،مولانا عبداللہ لدھیانوی اور مولانا منعم صدیقی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔
جانباز صاحب اپنی زندگی کے آخری حصے میں روزنامہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے رہے۔ ایک مرتبہ مجیدنظامی مرحوم نے اُن سے میرا رشتہ دریافت کیا اور ان کی تحریروں پر اپنی خوشنودی ظاہر کی۔
جانباز1940ءمیں مشرقی پنجاب کے قصبہ سرہند میں پیدا ہوئے جانباز کا خاندان قیام پاکستان کے موقع پر سرہند سے ٹوبہ ٹیک سنگھ منتقل ہوا پھر 1950 ءمیں جانباز کے والد قاضی نصیر الدین سرہندی کاروبار کے سلسلے میں کراچی چلے گئے اور جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی حیثیت سے شہرت پائی۔ پانچ سال بعد یہ خاندان دوبارہ ٹوبہ ٹیک سنگھ آگیا جہاں جانباز کے لئے استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد ان کی منتظر تھی ۔ ایوب خان کے مار شل لاءمیں جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے ایک فارم ہاﺅس کے مزارعین کو کسی جواز کے بغیر بے دخل کیا گیا تو جانباز نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کی پاداش میں انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ انہوںنے اپنے سیاسی رفقا سے مل کر 23 مارچ 1970ءکو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک تاریخی کسان کا نفرنس کا انعقاد کیا ، پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اور اس کے بعد ترقی پسند وں کا ایسا اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اس کانفرنس سے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے بھی خطاب کیا ۔ اس میں ایک مقرر مسیح الرحمن عرف جادو میاں بھی تھے جو بعد میں بنگلہ دیش کے نائب وزیر اعظم بھی بنے مسیح الرحمن نے اپنی تقریر میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کو للکارا اور کسی لگی لپٹی کے بغیر انہیں ملک کا غدار قرار دیا ۔ اس تقریر کے نتیجے میں مسیح الرحمن اور کسان کانفرنس کے منتظمین میں سے قاضی غیاث الدین جانباز اور چوہدری فتح محمد کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔ کافی عرصہ بعد جانباز نے نیشنل عوامی پارٹی سے اپنا راستہ الگ کرلیا اور پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوگئے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے طویل عرصہ ممبر بھی رہے ۔ پیپلز پارٹی سے وابستگی کی انہیں بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے دوران انہیں ایک خود ساختہ مغل پورہ بم کیس میں ملوث کردیا گیا انہیں گرفتار کرکے شاہی قلعہ لے جایا گیا جہاں ان پر بے رحمانہ تشدد ہوتا رہا۔جانباز نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن لڑے، انہوںنے جنرل ضیاءالحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کا مقابلہ کیا اور قومی اسمبلی کی نشست پر64 ہزار سے زائد ووٹ لئے لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی 1997 میں انہوںنے صوبائی اسمبلی کی نشست پر جنرل ضیاءالحق کے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر انوار الحق کا مقابلہ کیا اور آزاد امیدوار ہونے کے باوجود ان کے مقابلے میں20 ہزار ووٹ حاصل کئے لیکن اس بار بھی انہیں ہرادیا گیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ان کو اسمبلیوں میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔1999ءمیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی انتظامیہ نے شور کوٹ بازار میں کئی دکانیں گرانے کا فیصلہ کیا لیکن جانباز دکانداروں کے حق میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور انتظامیہ کو اپنا فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔ 2011ءمیں بجلی کی ناروااور غیر منصفانہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف جانباز نے اپنی نہایت خراب صحت کے باوجودفیسکو کے دفاتر کے سامنے بھوک ہڑتال کردی اور اس امر پر مصررہے کہ خواہ انہیں موت لے جائے لیکن وہ لوڈ شیڈنگ میں کمی کرائے بغیر اپنی بھوک ہڑتال ختم نہیں کریں گے، بالآخر فیسکو حکام کو ان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کرنا پڑا جس میں فیسکو حکام نے شہریوں کو یقین دلایا کہ وہ آئندہ زیادہ سے زیادہ 11 گھنٹے بجلی بند رکھیں گے جب کہ ان کی بھوک ہڑتال سے پہلے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے سے بھی بڑھ گیا تھا ۔