خواجہ جی بنے مورے مِیت رے !(2)

معزز قارئین ! مجھے 1191ءاور پھر 1193ءمیں غزنی کے سلطان شہاب الدّین غوری اور دہلی / راجستھان کے مہاراجا ،پرتھوی راج چوہان کی پہلی اور دوسری جنگ ِ ترائین ( (Battles of Tarain) کا خیال آیا، پہلی جنگ میں سلطان غوری شکست کھا کر غزنی واپس چلا گیا لیکن ، جب خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند ، حضرت معین الدّین چشتی اجمیری نے غوری کے خواب میں آ کر اسے فتح کی بشارت دِی تو فتح کے بعد غوری جب بہت سا مال و دولت لے کر خواجہ صاحب کے حضور حاضر ہوا تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ” یہ سارا مال و دولت ہر قوم کے لوگوں میں بانٹ دو!“۔ غوری نے ایسا ہی کِیا۔ 
غوری دوبارہ بہت سا مال و دولت لے کر حاضر ہوا۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ” یہ مال و دولت میرے کسی کام کا نہیں !“۔ غوری نے کہا حضور !۔ میرے لئے کوئی اور حکم؟“۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ”مقتول پرتھوی راج چوہان کے بیٹے گوبِند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!“۔ غوری نے کہا کہ” حضور !۔ وہ تو غیر مسلم ہے ؟ “۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ”فاتح مسلم قوم کی طرف سے مفتوح ہندو قوم کو ان کی سلامتی کا یقین دلانا ضروری ہے!“۔ غوری نے ایسا ہی کِیا!“۔ 
معزز قارئین ! مجھے یقین ہے کہ ”بانیءپاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے بھی خواجہ غریب نواز کی حکمت عملی ہی سے روشنی لے کر قیام پاکستان کے بعد ایک نچلی ذات کے ہندو جوگِندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا وزیر قانون بنا دِیا تھا۔
” ہندوستان کی مختلف زبانیں!“
 تواریخ میں لکھا ہے کہ ”لاہور میں حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویری کے دربار میں چلّہ کشی کے بعد خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت معین الدّین چشتی اجمیری اپنے مریدِ خاص (بعد ازاں، خلیفہ) حضرت خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی سمیت 40 مریدوں کے ساتھ 5/4 سال تک ملتان میں رہ کر ہندی ، سرائیکی ( پنجابی ) اور کئی علاقائی زبانیں سیکھتے رہے، چنانچہ خواجہ غریب نواز اور ان کے مریدوں کو ہندوستان کے کسی گوشے میں تبلیغ اسلام کے لئے کبھی کوئی دِقت پیش نہیں آئی؟
” مدنی سرکار دِیاں گلیاں !“
معزز قارئین ! قیام پاکستان سے قبل مَیں نے جنوری 1947ءمیں (12 ربیع الاوّل کو) بھارتی پنجاب کی (ان دِنوں سکھ ریاست نابھہ ) میں اپنے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان اور دو چچاﺅں ، رانا فتح محمد چوہان (شہید ) اور رانا عطاءمحمد کے ساتھ عیدمیلاد النبی کے جلوس میں شرکت کی تھی، جب میری عمر تقریباً 11 سال تھی۔ جلوس میں نعت خوان نوجوان پنجابی کی نعت پڑھ رہے تھے، جس کا یہ مصرعہ آج بھی میرے ذہن میں گونجتا رہتا ہے ....
”سارے جگ تو ں، نِرالیاں، دسدّیاں نیں، 
 مدنی سرکار دِیاں گلیاں!“ 
مَیں بڑا خوش قسمت ہوں کہ ”مجھے (”نوائے وقت“ کے کالم نویس کی حیثیت سے) ستمبر 1991ءمیں صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رکن کی حیثیت سے ، ان کے ساتھ دورہ سعودی عرب کے دوران (عمرہ ادا کرنے کے لئے) خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مَیں نے اپنے دو پاکستانی صحافی دوستوں کے ساتھ (پاکستانی سفارتخانے کی گاڑی میں) مدینہ منّورہ میں پیدل چل کر اور کبھی زمین پر بیٹھ کر ” سارے جگ تو نِرالیاں ، مدنی سرکار دِیاں گلیاں “ دیکھیں!
”اجمیر شریف دِیاں گلیاں!“
خواجہ غریب نواز کی بارگاہ کے ارد گرد مجھے بار بار ”اجمیر شریف دِیاں گلیاں“ دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مَیں کئی بار یہ سوچتا رہا کہ ”یقینا اِس گلی میں یا اس گلی میں ، میرے آباو اجداد نے (اپنے 40 مریدوں سمیت) خواجہ غریب نواز کواپنی زبان۔ (ہندی / راجستھانی) میں خطاب کرتے ہوئے سنا اور ان کے دست مبارک پر اسلام قبول کِیا ہوگا؟
”خواجہ جی بنے مورے میت رے! “ 
معزز قارئین ! یوں تو مَیں نے خواجہ غریب نواز کی اردو اور پنجابی میں بھی منقبتیں لکھی ہیں لیکن حضرت امیر خسرو سمیت ہندی، اردو اور پنجابی کے کئی شاعروں نے حضور پر نور صلی اللہ علی و آلہ وَسلم ،مولا علی مرتضیٰ، آئمہ اطہار اور اولیائے کرام کو اپنا محبوب بناکر اور خود عورت کا روپ دھار کر انہیں مخاطب کِیا ہے۔ مَیں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ....
”اَن مولت سگرے ،بِھیت رے!
گیا کارا، کارا، اتِیت رے!
مَیں تو گاﺅں پریم کے گِیت رے!
خواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!
خواجہ نے مو پر، نجر کرلی!
مَیں پَل میں ہوگئی بھاگ بھری!
میرے گیت بنے، سنگیت رے!
جواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!
خواجہ نے بٹھایا، چرنوں میں!
مَیں تو بِھیگوں پریم کے جَھرنوں میں!
یونہی جائے، جِیون بِیت رے!
خواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!
گھر بار نہ تھا، بن باسی تھی!
مَیں جنم جنم کی پیاسی تھی!
پڑ گئی پردے میں شیت رے!
جواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!
جگ کو اجیارا، دیں خواجہ!
اپدیش نیارا، دیں خواجہ!
سندیش ہے ان کا، پرِیت رے!
خواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!“
مَیں آگیا کاری خواجہ کی!
کِرپا آبھاری خواجہ کی!
ان پر ہے اثر پرتِیت رے!
جواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!

ای پیپر دی نیشن