(گزشتہ سے پیوستہ)
اسلامی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دورِ عروج میں مسلمانوں کی تنظیمی، عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی دشمن کے مقابلے میں بہت بہتر ہوا کرتی تھی۔ کہیں وہ عددی اعتبار سے کم ہونے کے باوجود دستیاب حربی وسائل کو زیادہ ذہانت اور تدبر کے ساتھ بروقت استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور کہیں ان کی ٹیکنالوجی دشمن کے مقابلے میں جدید اور بہتر ہوا کرتی تھی۔ عرب کی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ حضرت سلیمان فارسی کی مشاورت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خندق میں دفاع کے لئے ایک خندق کھودی۔ دشمن کے ذہن میں اِس قسم کی صورتحال کا تصور تک نہ تھا۔ جنگ قادسیہ میں ایرانیوں کے ہاتھی عرب فوج کے لئے بڑا مسئلہ بنے ہوئے تھے۔ ا±ن کو دیکھ کر عربی گھوڑے بدکتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنی سپاہ کو ایرانی ہاتھیوں کی آنکھوں اور سونڈوں کو نشانہ بنانے کا حکم دیا اور فتح اپنے نام کی۔ دمشق میں دشمن نے فصیل شہر کے گرد کافی لمبی چوڑی خندق کھودی اور اس میں پانی بھر دیا۔ بہت ہی اعلیٰ پائے کے مسلم سپہ سالار، حضرت خالد بن ولید نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ا±س خندق کو مشکوں کے ذریعے عبور کیا۔
عہدِ عثمانی میں بحری بیڑہ بنایا گیا جس نے 652 میں اسکندریہ پر حملہ کرنے والے رومی بحری بیڑے کو شکست دی۔ سندھ پر حملہ کرنے سے پہلے حجاج بن یوسف نے وہاں کے حالات کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں۔ اشیائے خور و نوش کی کمی اور گرمی کی حدت کی اطلاع پر روئی سرکے میں بھگو کر خشک کر لی تاکہ بوقت ضرورت ا±س کو پانی میں بھگو کر استعمال کیا جا سکے۔ راجہ داہر کے ساتھ لڑائی میں ”عروس“ نامی منجنیق کے ذریعے سنگ باری کی گئی اور دشمن کے لہراتے ہوئے جھنڈے کو، جو کہ فتح و نصرت کی علامت سمجھا جاتا تھا، گرا کر سپاہءغنیم کے بلند حوصلوں کو توڑ دیا۔ دریا کو کشتیوں کا پل بنا کر عبور کیا اور جنگی ہاتھیوں سے بچنے کےلئے روغن نفت پھینکا جس سے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔
سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کیلئے لکڑی کے تختوں پر موم چمکا کر ریگستان میں کشتیاں چلا دیں اور ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے جزیرے کو فتح کر لیا۔ شمالی افریقہ کے بد عہد اور سرکش باشندوں کی بد عہدی کو سدھارنے اور سرکشی کو کچلنے کے لئے گھنے جنگلات صاف کروا کر قیروان کے نام سے نیا شہر آباد کیا اور وہاں ایک مضبوط چھاو¿نی قائم کی۔ سپین پر حملہ کرنے سے قبل وہاں کے حالات کا مکمل جائزہ لیا گیا، گورنر، کاو¿نٹ جولین سے خفیہ رابطے کرکے تمام جزویات طے کی گئیں اور پھر 12 ہزار نفوس پر مشتمل فوج نے راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی۔ ولید نے اسلحہ کے کارخانے لگائے۔ موسیٰ بن نصیر نے تیونس میں اسلحہ کا ایک کارخانہ قائم کیا جس میں اس زمانے میں ایک سو جہاز تیار ہوتے تھے۔ برصغیر میں اگر کسی نے انگریزوں کو دو دفعہ شکست سے دوچار کیا تو وہ میسور کا حکمران حیدر علی تھا۔ ا±س نے فوج کو یورپی خطوط پر منظم کیا اور ایک لاکھ کے قریب مستقل فوج اپنی کمان میں رکھی۔ جو ڈسپلن اور اسلحے کے لحاظ سے انگریزوں سے بھی بڑھ کر تھی۔ حیدر علی نے بحری بیڑہ بنانے کی طرف بھی توجہ دی۔ افعان وار میں سوویت یونین کی فوج پر عظم افغان مجاہدین کو دئیے گئے امریکی سٹنگروں، میزائلوں اور دیگر حربی ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔
درج بالا واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان حکمران میدان جنگ میں نبردآزما ہونے سے قبل دشمن ملک کے حالات و معاملات پر مکمل دسترس حاصل کرتے تھے۔ اِس عمل سے وہ نہ صرف دشمن پر غالب آتے تھے بلکہ ان کا جانی و مالی نقصان دشمن کے مقابلے میں بہت کم ہوا کرتا تھا۔ صد حیف! یہ عظیم الشان قوم ٹیکنالوجی کی ترقی میں سست روی اور دیگر مختلف وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہو گئی جبکہ دوسری اقوام نے مسلمانوں کے علم و دانش سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگی و غیر جنگی ٹیکنالوجی کی مہارت اور جدت میں بے مثال ترقی کی۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کی آڑ میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ ابتدا صوبہ بنگال سے کی گئی۔ اومی چند کے ذریعے میر جعفر کے ساتھ سازباز اور سودے بازی کرکے جنگ کا جواز پیدا کرنے کیلئے بلیک ہول کا واقعہ گھڑا گیا۔ پلاسی کے میدان میں لارڈ کلائیو کی 23 سو فوج نے نواب سراج الدولہ کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی۔ میر جعفر کی غداری کے باوجود نواب سراج الدولہ کی وفادار فوج انگریز سے لڑی مگر روایتی ہتھیار توپ خانے کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ فتح بنگال نے برٹش امپیریل ازم کو مضبوط بنیاد فراہم کر دی جس کے بعد ہندوستان کے تمام صوبے ایک ایک کر کے برطانوی عملداری میں آتے چلے گئے۔ برطانوی فوج کی مضبوط بحری قوت اور اسلحہ کے اعلیٰ معیار کے باعث فرانسیسیوں اور پرتگیزیوں کا ہندوستان پر قبضہ کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں نے عربوں کی شیرازہ بندی کرکے عربوں کو دفاعی لحاظ سے اتنا کمزور کر دیا کہ وہ تمام مل کر بھی اسرائیل کی وار ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اب تو ذاتی مصلحتوں کی قبا پہنے عرب ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا یے۔ امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کا تورا بورا بنا کر رکھ دیا۔ خوفزدہ عراقی جرنیل اور پیپلز گارڈ امریکی فوج کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ صدام اور اسکے بیٹوں کا وہی حشر ہوا جو بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کا ہوا تھا۔ لیبیا کے ساتھ جنگ کے نتائج بھی عراق جیسے ہی نکلے۔ کرنل قذافی اور اس کا خاندان عبرت کا نشان بنا دیا گیا اور اب اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد اور لہو لہان کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا اسرائیل کے خلاف زبانی جمع خرچ تو کر رہی ہے مگر عرب اور دیگر مسلمان ممالک تو یہ تکلف بھی گوارا نہیں کر رہے۔ بس کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔
جو عوامل جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کی شکست کی وجہ بنے تھے، کم و بیش وہی عوامل افغانستان، عراق، لیبیا اور فلسطین پر جارحیت کی وجہ بنے ہیں۔ وار ٹیکنالوجی کا جو فرق جنگ پلاسی میں تھا، سقوطِ افغانستان، عراق اور لیبیا میں وہ فرق پہلے سے کہیں زیادہ ہو گیا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان ٹیکنالوجی کا یہ فرق پہلے سے کہیں زیادہ ہو جانا، مسلمان قوم اور مسلم حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔