مہذب قومیں جمہوریت میں مہذب طریقے سے احتجاج کے حق کو استعمال کرتی ہیں تاکہ ملکی معیشت تباہ نہ ہو اور عوام کی آمد ورفت میں کوئی خلل نہ پڑے ،دھرنے قومی مسائل کا ہر گز حل نہیں اور نہ ہی یہ مہذب قوموں کا وطیرہ ہے ،پاکستان میں آج تک جتنے دھرنے دیئے گئے ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ تو نہیں نکلا لیکن ان دھرنوں سے ملک کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ملک غیر مستحکم ہوا ، اور دھرنے ناکام ہوئے۔
دھرنوں میں سیاسی اور مذہبی رہنما حکومت وقت کے خلاف متحد ہو کر زور زبر دستی سے اپنے مظالبات منوانے اور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے حکومت پر اپنی پارٹی کے کارکنوں کے بل بوتے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں ،ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں چار اور پانچ جولائی 1980 ءکو تحریک نفاز فقہ جعفریہ نے جنرل ضیاءالحق کے زکٰوة اور عشر آرڈیننس کے خلاف پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے پہلا دھرنا دیا تھا ، اس دھرنے میں ہزاروں افراد شریک تھے ، ان کا موقف تھا کہ زکٰوة اور عشر آرڈیننس میں شیعہ برادری کو نظر انداز کیا گیا ، دو رو ز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کو مذہبی تناظر میں شیعہ مکتبہءفکر کو اس آرڈیننس سے استشنیٰ قراار دے دےاگیا تھا۔اسکے بعد دھرنوں کا رواج چل نکلا ، 1990 ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کے تحت 16 نومبر 1992 ءمیں لانگ مارچ کا علان کیا ،اسی دوران نواز شریف کی حکومت اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے درمیان کشمکش شروع ہو چکی تھی ، نے نظیر نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز حکومت کےخلاف لانگ مارچ کیا ۔
ستمبر 1996ءمیں جماعت اسلامی نے مرحوم قاضی حسین احمد کی قیادت میں ملین مارچ کیا ، جس کا مقصد اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے علیحدہ کرنا تھا ، اسلام آباد پولیس نے مارچ کے شرکاءکو تین دن تک آبپارہ کے قریب روکے رکھا جماعت اسلامی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ،تیسرے روز دھرنے کے شرکاءکو پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے ڈی چوک تک جانے کی اجازت دے دی گئی ، وہاں بھی آنسو گیس نے دھرنے کے شرکاءکا پیچھا نہ چھوڑا لہذا جماعت اسلامی نے پارلیمنٹ ہاﺅس تک پہنچنے کے دعویٰ کی دلیل پر دھرنے کے شرکاءکو منشر ہونے کا مشورہ دیا اور شام تک وہ منتشر ہو گئے ۔
9 مارچ ،2007 ءسپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو صدر جنرل پرویز مشرف نے عہدے سے جبری بر طرف کر دیا جس کی بنا پر وکلاءنے عدلیہ لہ بحالی کیلئے ملک گیر تحریک چلائی ،اور پھر جسٹس افتخار چوہدری ، وکلاء رہنماﺅں اعتزاز احسن ، منیر اے ملک، اور علی احمد کرد کی قیادت میں جون 2008 ءمیں پہلا لانگ مارچ ہوا، جو بغیر کسی رکاوٹ کے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوا، لیکن کوئی کامیابی نہ حاصل کر سکا، تاہم یہ تحریک رکی نہیں اور مارچ 2009 ءکو یہ لانگ مارچ میاں نواز شریف کی قیادت میں لاہور سے روانہ ہوا ، اس مارچ کو روکنے کیلئے اسلام آباد، راولپنڈی کو آ ہنی کنٹینروں سے سیل کر دیا گیاتھا ، مارچ نواز شریف کی قیادت میں ابھی گوجرانوالہ ہی پہونچا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کردار ادا کرنے پر تمام ججز کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا ۔
2013 ءمیں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کیا جو کہ چار روز تک جاری رہنے کے بعد حکومتی ارکان سے مذاکرات کے نتیجے میں ختم ہوا ، دوبارہ اگست 2014 ءمیں علامہ طاہر القادری نے ماڈل ٹاﺅن سانحہ کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ مل کر اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تحریک انصاف نے 2013کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف 14 اگست 2014 ءکو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جو کہ دھرنے کی شکل اختیار کر گیا ، پاکستان عوامی تحریک کے طاہر القادری نے 70 دن بعد اور عمران خان نے 120 دن بعد دھرنے کو اپنے مقاصد حاصل کئے بغیر منتشر کر دیا، لیکن تحریک انصاف کے کارکنان نے پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا توڑ پھوڑ کی اس دھرنے کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہت نقصان ہوا۔
نومبر 2017 ءانتخابی فارم میں تبدیلی کے خلاف تحریک لبیک جیسی غیر معروف دینی جماعت نے توہین مذہب کامسئلہ بنا کر اسلام آبادراولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد چوک پر دھرنا دیا بائیس روز تک جاری اس دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان سفر کرنے والے انتہائی مشکلات کا شکار رہے پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور مذاکرات کی اوڑ میں یہ دھرنا بھی ختم ہو گیا ، 2018 ءمیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حمایت کے ساتھ جمیعت علماءاسلام کی قیادت میں مہنگائی سمیت کئی مسائل کے پیش نظر مولانا فضل الرحمن نے مارچ کا آغاز کیا اور اس مارچ کو آزادی مارچ قرار دیا گیا جس میں تحریک انصاف کی حکومت کے سربراہ عمران خان سے استعفیٰ کا مظالبہ کیا گیا ، بعد اذاں یہ مارچ پشاو ر موڑ پر دھرنے کی شکل اختیا کر گیا ۔
پاکستان میں جتنے بھی مارچ یا دھرنے دیئے گئے ان میں سے چند مذاکرات کے بعد ختم ہوئے اور انہیں کامیاب قرار دیا گیا ، ماڈل ٹاﺅن کا سانحہ دس سال ہوئے ابھی تک فیصلے کے کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جبکہ عوامی تحریک کے طاہر القادری نے دو دفعہ لانگ مارچ اور دھرنا دیا اور ملک کے بیشتر حصوں میں احتجاج بھی کئے ، عمران خان نے 120 دن دھرنا دے کر ملکی معیشت کو برباد کیا اور وہ اپنے دھرنے کے مقاصد حاصل نہ کر سکے ، اب جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن بھی ملک میں مہنگی بجلی اور گراں فروشی کے خلاف دھرنے کو کار آمد سمجھتے ہیں ، لیکن گذشتہ ادوار میں لانگ مارچ اور دھرنوں کا جو حال ہوا، اس سے مختلف اس دھرنے کا انجام نہیں ہو گا ، لہذاکارکنان کے بل بوتے پر ریاست کو مجبور کر دینے کا تاثر غلط ہے ،دھرنوں کے بجائے حکومت وقت سے بالمشافہ مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہیں ۔