فرزند علی ہاشمی
farzandalihashmi@gmail.com
امام الفقراشاہ لطیف بری قادری قلندری المعروف بری امام سرکار کے عرس کی آمد آمد ہے ۔گزشتہ کئی برسوں سے مزار کی تعمیر ومرمت کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع تھا۔اس سال15 اگست سے 17 اگست تک تین روزہ عرس کی تقریبات کیلئے تیاریاں جاری و ساری ہیں۔ زائرین ہرسال ڈھول کی تھاپ پر برہنہ پا میلوں بارِ سفر اٹھائے درگاہِ بری پر حاضری دیتے ہیں۔ عرس کے موقع پرچادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ جوش و جذبے سے بھرپور ظاہر و باطن میں دھمال ہوتی ہے اور لنگر کا دور دورا رہتاہے۔ بری بری اور علی علی کی صدائیں عرش آشنا ہو جاتی ہیں۔ میں نے حاضری و حضوری کے پیشِ نظر لکھا تھا:کسی دیس کو، کوئی امام بری نصیب ہو جائے تو وہ کہاوت سے نور پور شاہاں ہو جاتا ہے۔ اس نگر میں حاضری سے بری کی نسبت سے بَری ہونا عین حقیقت ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ کسی حقیقت سے وابستہ و پیوستہ ہو جانا۔ یہی حقیقت ہے۔ امام بری بھی ایک بڑی حقیقت ہیں۔ بس، جس نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا، جانبِِ منزل ہو گیا۔ گویا منزل آشنا ہو گیا…کارآمد ہو گیا…سرخرو ہو گیا۔ منزل کیا ہے؟ وہی منزل، جسے پانے کے لیے ہدایت اور انعام والے چلے اور چلتے گئے یہ انعام والوں کا ہی تو راستہ ہے۔ انعام والے کون ہیں؟ وہی انعام والے جنھوں نے منعم کی رضا پہ سرِ خم تسلیم کیا۔ وہ راضیہ المرضیہ ہو گئے۔ وہ آرزوئے نعمت سے ماورا و مبرا ہوئے اور منعم تک جا پہنچے۔ یہ پہنچ، یہ رسائی کیا ہے؟ یہی ہے کہ' خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے'۔ جو اس راہ کا راہی ہوا، بھلا پھر اس کی اپنی رضا کیا ہے؟ یہی کہ مالک! میں آپ سے راضی ہوں اور آپ مجھ سے راضی ہو جائیے۔ یہ درحقیقت راضی برضا ہو جانے کی بات ہے۔ رضا ہی رضا اور تسلیم ہی تسلیم کا سفر ہے۔زبانِ امام بری سے اللہ اللہ کی صدا گونجی اور گونجتی چلی گئی۔ جواباََ،اللہ نے زبانِ خلق سے بری بری جاری کرا دیا ہے۔
اپنے محبوب کے محبوبائوں کے ذکر کا خالقِ کائنات کو بڑا پاس ہے۔ وہ اپنے بندوں کا اسی طرح بھرم رکھتا ہے اور رکھتا چلا جاتا ہے۔ وہ، یہ ذکر پھر زبانِ خاص و عام سے جاری کرا دیتا ہے۔ بری بری جپنے والے روحانی، جسمانی، ظاہری و باطنی بیماریوں، غلاظتوں اور آلائشوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ تکبر کا پہاڑ رائی رائی ہو کر عجز و انکسار کے دریا میں بہتا ہوا معرفت کے سمندر سے جا ملتا ہے۔ بغض، حسد اور کینہ کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ نفرتوں کی برف پگھل جاتی ہے۔ حرص و ہوس کے محل مینارے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ کہنے والے بری بری کہتے چلے جاتے ہیں۔ بری بری کرتے ہوئے علی علی کی صدا میں مست الست ہو جاتے ہیں۔ صدیاں بیت جانے پر، آج بھی جو خلوصِ نیت سے آئے، امام بری اسے قبول کرتے ہیں۔ یہ ساری داستانِ قبولیت ہے۔ یہ سب منظوری کی بات ہے۔ منظوری کی بات کیا ہے کہ منظوری ہو جائے۔ جب منظوری ہو جائے تو پھر اللہ والوں سے صرف اللہ اور اس کے محبوب کی محبت مانگی جاتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مانگنے والے کیا کچھ مانگتے ہیں۔ اللہ والوں کی نسبت بھی بڑی نسبت ہے۔ وابستہ ہونے اور مان جانے کی بات ہے۔ اِدھر تسلیم کیا، اْدھر سے منظوری کا پروانہ آگیا۔ یعنی روز و شب بدل گئے، زندگی اور اس کی ترجیحات بدل گئیں، انداز بدل گیا، گویا اندازِ نظر بدل گیا۔ بس، وہ ایک لمحہ تھا۔ وہی لمحہ جب سائل نے سوال کیا، توجہ اور محبت طلب کی تو وہ کہیں امام بری، گنجِ شکر، نظام الدین اولیاء اور کہیں داتا گنج بخش کا ہو کر رَہ گیا۔ پلک جھپکنے کا عمل کیا ہے؟ ایک ثانیہ ہے۔ یعنی زندگی ہے اور اس قلیل وقت میں، ایک ثانیے میں کسی کا ہو جانا بڑی بات ہے۔ کسی کے ہو جانے کی دیر ہے۔ یہ ’’ہو جانا‘‘ بڑا نصیب ہے۔ جو کسی کے ’’ہو‘‘ گئے، انھیں کوئی خوف نہ رہا۔ خوف کی جگہ محبت لے لیتی ہے۔ محبت والے، محبت والوں کے ہاں ہی پناہ لیتے ہیں۔ آج بھی کوئی پاک پتن، کوئی داتا کی نگری میں، کوئی تونسہ شریف اور کوٹ مٹھن میں اور کوئی جا کر امام بری کے ہاں پناہ لیتا ہے۔ پناہ لینے والوں کے لیے راستہ کھلا ہے۔ اس رواں فیضان کی مٹی میں ہر دم بتر ہے۔ پناہ لینے والے اپنے نصیب کا خوشہ حاصل کرتے ہیںاور کرتے چلے جاتے ہیں۔
بری کے ہاں سوالیوں کے لیے کیا ہے؟۔ محبت ہے، محبت دَر محبت۔ہر ایک کے لیے محبت۔ ذرے ذرے سے محبت۔ اللہ والوں سے اللہ اور اس کی مخلوق کی محبت ملتی ہے۔ اللہ اور اس کے مقربین کا قرب ہی تو ملتا ہے۔ یہ قرب دَر قرب کی بات ہے۔ قرب کے سبب جو مقرب ہو جائے، اس کی بات، اس کی داستاں اور ہے۔ اس کی آنکھ خود نہیں دیکھ رہی ہوتی، خداوند متعال کہتا ہے میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔۔۔اور اس کا ہاتھ، اس کی زبان بن جاتا ہوں۔ یہ بَن جانا کیا ہے؟ یہ ایک راز ہی تو ہے۔ جب اللہ خود آنکھ بن گیا تو وہ صاحب، صاحبِ نظر ہو گیا۔ اس نظر نے جس کا تعاقب کیا، وہاں طیب چشمے پْھوٹ پڑے۔ دل کی دنیا بدل کر رہ گئی۔ اسی نظر سے حق کا بول بالا ہوتا ہے۔ دِلوں میں گھر کیے برسوں کے بْت پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ وہ نظر تزکیہ کرتی چلی جاتی ہے۔ تزکیہء نفس اور تصفیہء باطن۔۔۔ اور وہ زبان؟ وہ زبان جو کہہ دے، اٹل اور امر ہوتا ہے کیونکہ زبانِ بری سے وارثِ بری بول رہا ہوتا ہے۔ وہی وارث جو مالکِ کْل ہے۔ اس وارث کی وراثت یہ اللہ والے ہی تو ہیں، جو اپنے دَر پہ آنے والوں کو اللہ کی وراثت میں شامل کر لیتے ہیں۔ وراثت میں شامل ہونا کیا ہے؟ بس، ہم اللہ کے ہو کر رہ جائیں۔
درگاہِ امام بری مرجع خلائق ہے۔ کیوں ہے؟ کہ وہاں ارواح کی محبت ملتی ہے۔مگر اس کیلئے ہر ایک کو اپنے اپنے امام بری کا رخ کرتے ہوئے ان کا سایہ عاطفت کی آرزو کو بہ قیدِ حیات رکھنا ہو گا۔