امام بری سرکار حضرت سید شاہ عبدالطیف مشہدی کاظمیؒ

 سید مشرف کاظمی
syedmusharafkazmi@gmail.com
حضرت سید شاہ عبدالطیف المشہدہی کاظمی المعروف بری امام سرکار برصغیر پاک و ہند کے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام میں شامل ہیں جنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں اس خطے کو نور اسلام سے منور کیا ۔آپ1617 اور 1026ہجری میں ضلع چکوال کے علاقے چولی کرسال میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک سید سخی محمود بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا آپ کے والد گرامی بھی ایک ولی تھے بری امام سرکار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید محمود بادشاہ سے حاصل کی۔آپ نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم اسلامی کی تعلیم نجف اشرف عراق میں حاصل کی۔ سید محمود بادشاہ جو نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیںچھوڑ ی تھی۔ حضرت سید شاہ عبدالطیف المشہدی کاظمی نے مقدس اسلامی شہروں نجف اشرف مشہد مقدس میں مختلف علما سے دینی علوم کے علاوہ روحانی فیض بھی حاصل کیا۔جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آ پ سید کسراں میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا ۔ لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری د یتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ وعظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے۔  کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے۔ باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی۔ بری امام کاظمی نے کچھ عرصہ یہاں قیا م کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ان ہی دنوں کاواقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے  توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کردی فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ  کے پاس آیا۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے۔  والد کے دوبارہ سرزنش کرنے کے پر بھی  آپ نے خاموشی اور سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شاداب کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا۔
 آپ سادات کے ایک مایہ ناز گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا شجرہ نسب تاجدار امامت حضرت علی المرتضی ؓ سے ہوتے ہوئے امامت کے ساتویں تاجدار امیر بغداد حضرت امام موسی کاظم سے جا ملتا ہے۔ خطہ پوٹھوہار کی بزرگ ہستی بری امام سرکار نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا۔
حضرت بری امام سرکار کو قطب الاقطاب اور ولی اللہ کا مقام حاصل ہوا۔ یہ مقام تصوف میں بڑی کاوشوں محنتوں اور عشق حقیقی سے حاصل ہوتا ہے۔ آپ نے فقہ اور حدیث کی تعلیم نجف اشرف سے حاصل کی اور اس کے بعد آپ مقدس مقامات کی زیارت کیلئے مکہ معظمہ مدینہ منورہ کربلائے معلی اوردوسرے اسلامی ممالک میں تشریف لے گئے ، بری امام کا یہ سفر بارہ سال پر محیط ہے۔ آپ مستقلاً وہاں ولی کامل حضرت حیات المیرسے بیعت تھے۔ انہیں بری امام کا لقب ان کے مرشد حضرت حیات المیر ہی نے عطاء کیا تھا۔ اللہ تعالی نے اپنے ولیوں کی تعریف قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے۔ ترجمہ : بے شک اللہ تعالی کے ولیوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے "دوسری جگہ ارشاد ہے کہ جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ جس طرح اللہ تعالی کاقانون جن و انس میں جاری و ساری ہے  انسانوں میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے بعض لوگوں کو مخصوص اختیارات تفویض کرکے مقرر کیے جاتے ہیں۔ 
ایک مرتبہ آپ کہیں سفر پر جا رہے تھے اور آپ کا مرید خاص مٹھا شاہ بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔ ابھی آپ نے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اچانک جنگل سے چند ڈاکو نکلے اور انہوں نے لوٹنے کی غرض سے آپ کا راستہ روک لیا مگر جونہی ان کی نظر آپ کے چہرہ مبارک پر پڑی اور انہوں نے آپ کی گفتگو سنی تو جرائم سے ہمیشہ کیلئے تائب ہوگئے اور اسی وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے آپ کے مرید بن گئے۔ آپ نے یہیں اقامت اختیار کرکے تبلیغ کا کام شروع کردیا اور اس طرح چور پور میں اسلام کے نور کی روشنی پھیلا کر اسے ہمیشہ کیلئے نُور پور بنا دیا۔ یہ وہی نور پور شاہاں ہے جہاں آج آپ کا مزار مبارک ہے اور ہزاروں لوگ یہاں اپنی عقیدتوں کا اظہار کرنے آتے ہیں۔ حضرت بری امام سرکار نے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کرنے اور روحانی منازل طے کرنے کے بعد ضلع ہزارہ میں قیام کیا اور آپ نے سید محمد کی دختر نیک اختر بی بی دامن خاتون سے نکاح کیا آپ کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی مگر کچھ عرصہ بعد آپ کی زوجہ محترمہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ بری  امام سے مراد ہے بر و بحر یعنی پہاڑوں بیانانوں دریاؤں ندیوں چشموں اور ایسی تمام آب گاہوں کے متولی جنہوںنے یاد الہی میں تند و تیز ہواؤں اور موسمی حالات سے بے نیاز دن رات چلہ کشی کی ۔ حضرت بری امام سرکار کی عبادات و کرامات پاک و ہند میں مشہور ہیں۔ سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ نے دو مغل شہزادوں کی بالخصوص تربیت کی اور دینی روحانی اصلاح کرکے ایک شہزادے کو راہ سلوک کی دنیا میں گم کردیا اور اس کا نام آپ نے شاہ حسین رکھا۔ اس کے علاوہ نور پور شاہاں کے قریب ایک مقام ہے جس کا نام لوئی دندی ہے یہاں بیٹھ کر حضرت بری امام  اکثر عبادت الہی میں مصروف رہے جب آپ عبادت میں مصروف ہوتے تو ایک جن آ کر آپ کو پریشان کرنے لگا اور آپ کی عباد ت میں خلل ڈالنے لگا۔ جب وہ کسی صورت باز نہ آیا تو آپ نے اس جن سے نجات کیلئے دعا کی اور وہ جن وہیں پتھر بن گیا ۔حضرت شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار نے 91 سال کی عمر میں 1117 ھ،بمطابق 1708 کو دنیا سے پردہ فرمایا،اور نورپور شاہاں میں سپرد لحد کیا گیا۔ جہاں آپ کا مزار مبارک عقیدت مندوں کیلئے مرجع خلائق ہے۔ گذشتہ سال وفاقی وزیر خزانہ محترم اسحاق ڈار نے عرس کی افتتاحی تقریب کا افتتاح کیا تھا امسال بھی امید یہی ہے کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار ہی یہ سعادت حاصل کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن