اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ ہو، سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ، ایسا کرنا آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے، انتظامی اداروں کو سمجھنا ہوگا ان کے پاس کوئی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں ہے، اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کا مزیدکہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے ایک کیس میں اقلیتوں کیلئے 5 فیصد کوٹے کا تحفظ یقینی بنایا اور عدالت قرار دے چکی ہے، پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ بین المذاہب ہم آہنگی پر مباحثے کی ضرورت ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ تمام مذاہب دوسرے مذاہب کو جگہ دیتے ہیں تو انکے ماننے والے کیوں نہیں دیتے؟۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں پر عمل نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہو گی، آپ اس طرف چل پڑے کہ فیصلوں پر عمل نہ ہو تو آپ اسٹرکچر تباہ کر دیں گے، فیصلوں پر عمل کوئی بوجھ نہیں یہ آپ کا آئینی فریضہ ہے، کسی کو اختیار نہیں کہ وہ کہے فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں یہ سپریم کورٹ نے دیکھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ہم نے کہا ہے کہ یہ بات ذہن نشین کر لیں ہو نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو، اگر ایسا سوچاجائے گا تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، انتظامی اداروں کو سمجھنا ہوگا ان کے پاس کوئی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ آئین کہتا ہے اور سپریم کورٹ یہ اختیار آئین سے لیتی ہے کسی اور دستاویز سے نہیں لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی اور اسٹرکچر بنانا ہے تو وہ بنا لیں پھر اس پر بات کریں گے، ذہن نشین کر لیں ہو نہیں سکتا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو، سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، ایسا کرنا آئین کے ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے بنیادی حقوق سے متعلق سپریم کورٹ نے2014 میں فیصلہ دیا، یہاں اس تقریب میں بتایا گیا کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا، ہمارا فیصلہ ہے تو عمل کرائیں گے، ملک میں اقلیتوں کے اتنے ہی حقوق ہیں جتنے میرے ہیں، کئی گھنٹے یہ سمجھانے میں لگے کہ اقلیتوں سے متعلق فیصلے پر عمل نہیں ہو رہا۔ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اور ججز کمیٹی کے سامنے یہ مؤقف رکھوں گا، اسلم خاکی نے یہاں مجھے قائمقام چیف جسٹس قرار دیا تھا ، چیف جسٹس فائز عیسیٰ موجود بھی ہیں اور صحت مند بھی ، چیف جسٹس میرے دوست ہیں اور مکمل کمانڈ میں ہیں، چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے میں سینئر جج ہی ٹھیک ہوں۔اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی تعلیمات دیتا ہے، آئین پاکستان تمام مذاہب کو عبادت کی اجازت دیتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں واضح ہے کہ پاکستان سماجی انصاف اور شرعی اصولوں پر قائم جمہوری ملک ہے۔جبکہ جسٹس منصور علی شاہ 23 اگست تک چیمبر ورک پر چلے گئے۔ چیمبر ورک کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کا چھٹیوں پر جانے کا امکان ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ لکھنا شروع کر دیا ہے۔ فیصلہ گرمیوں کی تعطیلات کے بعد جاری ہونے کا عندیہ دیتے کہا کہ ججز چھٹیوں پر ہیں اسکے بعد اکثریتی فیصلہ ججز کے ساتھ ڈسکس کیا جائے گا۔ اپنی چیف جسٹس تعیناتی کے سوال پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ نوٹیفکیشن جب ہونا ہو گا ہو جائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے کوئی جلدی نہیں جب ہونا ہو گا نوٹیفکیشن ہو جائے گا۔