مقبوضہ جموں کشمیر کے حریت پسند رہنما یاسین ملک نے وکیل کی خدمات لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنا کیس خود لڑنے کا فیصلہ کرلیا جبکہ ان کے فیصلے پر دہلی ہائیکورٹ کے بینچ نے کیس کی سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کردی۔حریت پسند رہنما یاسین ملک کا اپنا کیس خود لڑنے کا فیصلہ بھارتی نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ قرار دیا جانے لگا۔جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی بھارتی حکومت کی درخواست کی سماعت 15 ستمبر کو نئی دہلی ہائیکورٹ میں ہوگی۔درخواست کی سماعت کے موقع پر محمد یاسین ملک کو عدالت میں پیش کرنے پر پابندی ہے تاہم انہیں ویڈیو لنگ کے زریعے پیش کیا جائے گا۔گزشہ روز مقدمے کی سماعت کے موقع پر یاسین ملک کو نئی دلی کی تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، یاسین ملک نے ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں سزا ئے موت دلانے کے لیے دائر اپیل میں اپنا دفاع خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حریت رہنما نے جسٹس سریش کمار کیت اور جسٹس گریش کٹھپالیہ پر مشتمل ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ کو بتایاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع خود کرنا چاہتے ہیں۔ان کے اس فیصلے کے بعد جسٹس سریش کیٹ کی سربراہی والے بینچ نے کیس کی سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کردی۔یاسین ملک نے اپنے کیس کے ازخود دلائل دینے کا فیصلہ کیوں کیا ہے اور اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے، ایسا کرتے ہوئے یاسین ملک مقدمے کی سیاسی نوعیت اور بھارتی حکومت کی جانب سے انہیں خاموش کرنے کی کوششوں کو بھی اجاگر کرنا ہے۔یاسین ملک یہ سمجھتے ہیں کہ وکیل مقرر کرنے کی صورت میں ان کا مقدمہ منصفانہ انداز سے نہیں چل سکتا، ایسا کرکے وہ ایک طرح سے بھارت میں قانونی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔یاسین ملک کی جانب سے اپنا مقدمہ خود لڑنے کو بھارتی حکومت کی پالیسیوں کیخلاف مزاحمت کی علامتی کارروائی کے طور پر بھی دیکھا جائے گا، مقدمے کا فیصلہ جو بھی آئے حریت رہنما کی جدوجہد کشمیری نوجوانوں کو حق کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی رہے گی۔یاسین ملک اور دیگر کشمیری رہنما جو بغیر شواہد اور بغیر ثبوتوں کے پابند سلاسل ہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کیلئے ٹیسٹ کیس ہیں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کو بھارت پریہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو بہتر کئے بغیر خطے میں امن کا قیام خواب ہی رہے گا۔دوسری جانب بھارت تقسیم ہند کے بعد سے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے بھارت نے وہاں کے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی ہے، بھارت نے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بھارتی آئین کو روندتے ہوئے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا بھی خاتمہ کردیا۔اب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی قابض فوج نے مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرنے کیلئے ہر طرح کا غیر انسانی حربہ استعمال کیا ہے، کشمیر کی آزادی اور وہاں کے مظلوم عوام کے حق میں آواز اٹھانے پر مسرت عالم، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی اور یاسین ملک ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پابند سلاسل ہیں۔