چھلنی آٹا! چھلکا کاریں! جعلی دوائیں!

مقامی کار ساز اداروں کی من مانی قیمتیں ادا کرتے کرتے اکتاہٹ کی آخری حد تک کنارے لگ جانے کے بعد آخر کار ’وفاقی حکومت‘ غیر ممالک میں 5 سال تک زیراستعمال رہنے والی ’گاڑیاں‘ درآمد کرنے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئی! اور اپنی ’مجبوری کا اعلان‘ کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہ کی کیونکہ اہل اقتدار جانتے ہیں کہ ’شرم‘ کے ساتھ زندگی بسر کرنا، اب ان کے بس کی بات ہی نہیں رہ گئی! لہٰذا، ایک ’صاف ستھری‘ زندگی کے ساتھ عمر بسر کرنے کے لئے انہوں نے ’آغاز کار‘ کے طور پر اسی ماں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا، جس نے انہیں بولنا سکھا دیا تھا! کسی کے آگے ’بولنا‘ یوں بھی ہماری عادت نہیں رہی! قائداعظمؒ نے ہمیں ’زبان‘ دی تو ہم ’یک زبان‘ ہوگئے اور یک جان ہو کر قائداعظمؒ کے پیچھے چل پڑے اور ’پاکستان‘ حاصل کرکے دم لیا! قائداعظمؒ کے رحلت فرما جانے پر ہم ایک بار پھر ’یک زبان‘ اور ’یک جان‘ ہوگئے مگر دم میں دم آتے ہی ’پہلے وزیراعظم‘ سے جان چھڑالی، پھر مشرقی پاکستان سے ’جان‘ چھڑالی یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔ لہٰذا موجودہ پاکستان کے پہلے صدر، پہلے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور پہلے وزیراعظم کی گردن بھی مار دی گئی کہ سب کچھ نئے سرے سے آغاز ہونا ضروری ہو چکا تھا!
اب جبکہ ہم باقی ماندہ پاکستان کے دو مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کو ’وردی سمیت‘ خیر باد کہہ چکے ہیں! پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا شمار ’شہدا‘ میں ہوتا ہے جبکہ دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا شمار ’شُہدوں‘ میں ہو رہا ہے! پنجابی زبان میں ’ہائے شہدا‘-’ہائے بے چارا‘ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے! اردو دان اسے دونوں معنوں میں استعمال کرتے ہیں ناچار کے معنوں میں بھی اور لاوارث کے معنوں میں بھی، خواہ وہ ’وارث‘ کے نام سے مشہور ہوجائے! ایک زمانہ تھاکہ ’غنڈہ گردی‘ بھی اصول کے مطابق کی جاتی تھی! کسی ’مہمان‘ کے آ جانے پر لڑکا بھیج کر ’سوڈے کی بوتل‘ منگوالی جاتی اور پیسے ہاتھ آنے پر اسے خود جا کر ’قیمت‘ پہنچا دی جاتی، یہ 24 گھنٹوں کا ’اُدھار‘ بھی ’خوش معاشی‘ میں شمار نہیں کیا جاتا تھا! آج یہ حال ہے کہ زندگی اُدھار پر چل نکلی ہے! قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہے اور ہم قرض پر’سود‘ ادا کرنے کے لئے بھی ’مزید قرض‘ لیتے چلے جا رہے ہیں! ایک ایسے ماحول میں یاروں کے لئے ’استعمال شدہ کاریں‘ درآمد کرنے کی اجازت کوئی چھوٹی سی بات نہیں! یہ ری کنڈیشنڈ گاڑیاں دیکھ کر ہماری نئی نسل کو یہ تو معلوم ہو سکے گا کہ ’گاڑیاں‘ کیسی ہوا کرتی ہیں؟ مقامی گاڑیوں کی حقیقت تو مقامی کار ساز اداروں کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں! ہوسکتا ہے وہ استعمال شدہ کاریں پاکستان بھیجنے سے پہلے پہلے مقامی کاروں کے لئے ’ایکسی ڈینٹ ٹیسٹ‘ کے قریب سے گزر جانے جتنا ہی معیار اپنانا لازم ٹھہرا لیں! یقین جانیں یہ کاریں دنیا کے کسی ملک میں بھی سڑکوں پر لائے جانے کے قابل نہیں ٹھہر سکتیں! غیرملکی نئی گاڑیاں ہماری پہنچ سے دور ہیں اور ’پرانی گاڑیاں‘ رسائی سے دور! مقامی کار ساز ادارے ’ایکسی ڈینٹ ٹیسٹ‘ سے روگردانی پیسہ کمانے کی خاطر کرتے ہیں اور یہ ’بے اصولی‘ کچھ پیسہ خرچ کرکے ’قانونی‘ کروا لیتے ہیں، یعنی یہ گاڑیاں سڑکوں پر لانے کا ’اجازت نامہ‘ حاصل کرلیتے ہیں! دوسرے لفظوں میں اپنے گاہکوں کی جان داﺅ پر لگانا، اس کاروبار کا بنیادی ڈھانچا ہے! اب جبکہ دوسروں کی جان سے کھیل کر پیسہ بنانا کاروبار قرار پا چکا ہو! جعلی ادویہّ پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہ رہا ہو! غذائی اجناس میں ملاوٹ باقاعدہ کاروبار کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہو! ’مردار گوشت‘ سرعام بک رہا ہو اور کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو! تو ’چھلکا کاریں‘ بیچنا کیوں کر جرم قرار پاسکتا ہے؟

ای پیپر دی نیشن