نشہ.... ذلت ، رسوائی، تباہی اور بربادی فقط!میں نے اپنے پچھلے مضمون میں منشیات کی پیداوار اور اس کے پھیلاﺅ، منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد، منشیات کے گھناﺅنے کاروبار کے حجم کا ملکی اور عالمی تناظر میں ایک جائزہ پیش کیا تھا۔ عام طور پر استعمال کی جانے والی منشیات کون سی ہیں، یہ انسانی جسم و ذہن پر کس کس طرح کے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اس کے زیر اثر انسان کیا کیا گُل کھلاتا ہے، اس مضمون میں اس کی چند حقیقی مثالیں پیش کی جائیں گی۔ ٭.... چند سال قبل ایک بس ڈرائیور نے اپنی گاڑی اختر آباد (ضلع قصور) کے قریب نہر کے پل سے ٹکرا دی جس کے نتیجہ میں 36 مسافر ہلاک ہو گئے۔ تفتیش پر پتہ چلا کہ ڈرائیور لاہور سے نشہ کر کے چلا تھا۔ ٭.... خاوند نے بیوی (ذکیہ) پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہو مسخ اور گردن جلا ڈالی۔ اسی کا علاج کر کے اور اس کی ڈاکو مینٹری بنا کر دنیا کو دکھانے پر شرمین عبید چنائے ایک پاکستانی خاتون نے آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔ خاوند نشئی تھا۔ بیوی سے نشہ کےلئے پیسے مانگتا تھا۔ انکار پر تیزاب پھینک کر جلا ڈالا۔٭.... مغل پورہ میں باپ نے ابھی چند روز قبل اپنے بارہ سالہ بیٹے کو معمولی رقم چرانے کے الزام میں ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا اور اسے اس کا پچھتاوا بھی نہیں۔ باپ نشئی تھا اور گھر میں بات بات پر غصہ کرتا تھا۔ ٭.... نشئی کے سامنے اوباش اس کی بہن کی آبروریزی کر گئے اور وہ اسے بچانے کےلئے اٹھ بھی نہ سکا۔ ٭.... چند ماہ قبل مزنگ میں ایک نشئی نے ماں سے سر دبانے کو کہا اور پھر اس پر جنسی حملہ کر دیا۔٭.... بھاولنگر میں باپ نے بیٹی کی عزت برباد کر دی۔ وہ بھی نشہ کا عادی تھا۔ ٭.... بھائی باپ نشے کی لت میں مبتلا ہو گئے۔ بہنوں اور بیٹیوں کے طے شدہ رشتے ٹوٹ گئے اور لڑکیاں ذہنی مریض بن گئیں۔٭.... یہ اس قسم کی ہزاروں میں سے چند مثالیں ہیں۔ جب انسان مذہب اور ملک کی مقرر کردہ تمام حدود و قیود توڑتے ہوئے نشہ کر لے اور اس کے ہوش و حواس معطل ہو جائیں تو پھر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اشرف المخلوقات سے اسفل المخلوقات بن جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ ہوش و حواس معطل کر دینے والا نشہ اور خمار جو بیٹی اور ماں کی تمیز ختم کر دیتا ہے۔ جو شفقت پدری کا گلہ گھونٹ دیتا ہے جو انسان کے اندر سے مردانگی اور غیر ت کا قلع قمع کر دیتا ہے جو اس کو اپنے آپ سے بیگاہ کر دیتا ہے جو اسکو گھر کے پاکیزہ اور آرام دہ ماحول سے گندی نالیوں‘ قبرستانوں‘ ویرانوں اور گندگی کے ڈھیروں پر لا پھینکتا ہے۔ کن چیزوں کا ماحاصل ہے اور وہ کسی طرح اس پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ کوئی بھی ایسا نباتاتی یا کیمیائی مواد جو عارضی طور پر ذہنی و جسمانی کیفیت کو تبدیل کر دے منشیات کہلاتا ہے۔ ایسی اشیا کا بار بار اور مسلسل استعمال انسان کو اسکا عادی بنا دیتا ہے اور اسکی جسمانی اور ذہنی کارکردگی اور کیفیت بھی مستقل یا لمبے لمبے دورانیے کے لئے بدل جاتی ہے اور انسان وہ کچھ کرنا شروع کر دیتا ہے جو وہ بقائمی ہوش و حواس کبھی نہیں کر سکتا اور وہ کچھ کرنا چھوڑ دیتا ہے جو کہ اسے کرنا چاہئے۔ اس کی پسند ناپسند بدل جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کے سماجی و مذہبی نظریات و خیالات بدل جاتے ہیں۔ جن چیزوں کے بارے میں وہ پہلے بہت حساس اور شدید ہوتا تھا اب اس کے بارے میں غیر جانبدار، لاتعلق یا بے حس ہو جاتا ہے۔ بنا بریں انسان کی حقیقی شخصیت مزاج اور کردار کے تحفظ اور اس کی بقاءکے لئے منشیات کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرنا اور لوگوں کو اس کے استعمال سے بچانا بے حد ضروری ہے۔ چند جانی پہچانی نشہ آور اشیاءچرس، افیون، ہیروئن،کوکین اور شراب ہیں اور کچھ مارفین، پیتھاڈین، کوڈین، میتھا ڈان، ایمفیٹامن، کھانسی کے شربت اور سکون آور ادویات وغیرہ ہیں جو بنائی تو جاتی ہیں مریضوں اور خاص طور پر جن کے آپریشن ہوتے ہیں انہیں درد سے آرام پہنچانے اور سلانے کیلئے لیکن ان کے اچھے بھلے لوگ بھی آرام و سکون اور نیند لانے کےلئے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کے عادی اور ان کے مضر اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ منشیات (اور ادویات) کس طرح انسان کے جسم و ذہن پر اثرانداز ہوتی ہیں اس کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔ چرس: یہ دنیا بھر میں تقریباً ہر جگہ پائے جانے والے بھنگ کے پودے سے تیار کی جاتی ہے جسے کینابس، میری جوانا، حشیش اور گردا وغیرہ کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں نشہ استعمال کرنے والوں کی ساٹھ سے پینسٹھ فیصد تعداد چرس یا حشیش ہی استعمال کرتی ہے۔ اس کے استعمال کرنے سے انسان کے تمام جسمانی اجزاءسست پڑ جاتے ہیں جس سے وقتی طور پر تو استعمال کرنے والا اپنے آپ کو قدرے آسودہ محسوس کرتا ہے لیکن بار بار اور مسلسل استعمال سے اس کے جسم اور ذہن پر اس کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی یادداشت مثاثر ہوتی ہے۔ چال ڈھال، گفتگو اور سوچوں میں خلل پڑتا ہے۔ چیزوں کی اہمیت، ماہیت، رنگ، حجم اور وزن کا درست اندازہ نہیں کر پاتا۔ نظام تنفس میں خلل پڑتا ہے۔ دائمی اور خشک کھانسی، ناک کا بہنا، چھاتی کی انفیکشن، غنودگی ڈیپریشن اس کے دیگر اثرات ہیں۔ قوت پرکھ، تجزیہ و فیصلہ کمزور ہو جاتی ہے اور اس کا استعمال کرنے والا سماجی اور معاشرتی رشتوں اور کاموں سے بتدریج کٹتا اور ناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ افیون اور افیون سے بنی ہوئی چیزیں: افیون افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کثرت سے پیدا ہونے والے پودے پوست کے ڈوڈے سے نکلنے والے لیس دار مواد سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ بھی چرس کی طرح انسان کے مرکزی اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے اور تقریباً وہ تمام جسمانی اور ذہنی کمزوریاں اور خلل پیدا کرتی ہے۔ جو چرس یا حشیش سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں چال ڈھال، گفتگو اور بصارت میں خلل، قوت تجزیہ و فیصلہ میں خلل، غنودگی، سانس کا دھیما پن، آنکھ کی پتلی کا سکڑ جانا، سستی، کاہلی، قبض اور متلی قابل ذکر ہیں۔ دل اور گردوں کی بیماریاں اس کا مزید تحفہ ہیں۔ کام کاج میں دل نہ لگنا اور عزیز و اقارب سے کٹنا یا گریز اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ اگر بہت زیادہ مقدار میں لے لی جائے تو سانس رک رک کر آتا ہے جلد لیس دار ہو جاتی ہے۔ پٹھوں میں تشنج کے دورے پڑتے ہیں اور نتیجتاً بے ہوشی اور اکثر اوقات موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ ہیروئنافیون ہی کو ایک کیمیکل پروسس سے گزار کر سفید یا بھورے پاﺅڈر کی شکل میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ جسے نشہ کے عادی افراد مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ ہیروئن اس لحاظ سے حدر درجہ خطرناک ہے کہ اسکا ایک آدھ دفعہ کا استعمال انسان میں اسے بار بار استعمال کی طلب پیدا کرتا ہے اور وہ اسکے نشے کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہ شدید جسمانی اور نفسیاتی انحطاط پیدا کرتی ہے۔ ہیروئن کے عادی شخص کا وزن کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ رنگت زرد اور جنسی اور جسمانی طاقت ضائع ہونے لگت ہے۔ منہ سے بدبو آتی ہے۔ پھوڑے پھنسیاں نکلتی ہیں۔ مریض کھانسی، بلغم، اور آخر کار تپدق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دل اور گردوں اور اگر بذریعہ انجکشن لی جائے تو ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہے۔ دو تین سال کے عرصہ میں ایک تندرست انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر چلتی پھرتی لاش میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہیروئن اسکے جسم، اسکے تمام اجزا اور ذہن کو مفلوج اور تباہ کر دیتی ہے اور اگر ایسے شخص کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو وہ بہت دیر جی نہیں پاتا۔ ایسے لوگ آپ کو شہر میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ کوکین: کوکین ایمفیٹامن اور کچھ ادویات جنہیں آج کل کلب ڈرگز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انسانی جذبات کو متحرک اور برانگیختہ کرتی ہیں اور اسے کسی بھی عذر کے طور پر انہی مقاصد کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا اثر اسکے استعمال کرنے سے چند منٹ بعد شروع ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں عجیب قسم کا ہیجان، جوش اور غیر معمولی مستعدی پیدا ہو جاتی ہے۔ نیند اور بھوک اڑ جاتی ہے۔ جسمانی کام کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔ بظاہر اس کو استعمال کرنے والا اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی پھرتی چستی سے خوش ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بدلا ہوا انسان محسوس کرتا ہے اور اسی شوق میں اسکا بار بار استعمال کرتا ہے لیکن بالآخر اسکے تباہ کن اثرات کا شکار ہو جاتا ہے۔ آپ اپنے جسم کو آخر کتنا اور کب تک چابک مار مار کر اس کی استعداد سے زیادہ بھگائیں گے۔ ایک دن یہ گر پڑے گا اور پھر نہ اٹھ سکے گا۔ نیند اور بھوک کی کمی اسکے جسم کے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتی ہے۔ دوران خون بہت تیز ہو جاتا ہے جس سے اکثر اوقات ناک،منہ اورکانوں سے خون جاری ہو جاتا ہے۔ یا فالج کا حملہ ہو جاتا ہے۔ بے آرامی سے غصہ اور تلخی بڑھتی مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ دل کے دورے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ نشے کا اثر ختم ہونے پر انسان اپنے آپ کو بالکل پژمردہ اور نڈھال محسوس کرتا ہے۔ موڈ اور مزاج کی یک لخت اور بار بار تبدیلی بالآخر اسے ڈیپریشن کا مریض بنا دیتی ہے۔ منشیات کے یہ تو وہ اثرات ہیں جو استعمال کرنے والے کے ذہن اور جسم پر پڑتے ہیں۔ اسکے نفسیاتی، سماجی اور معاشی اثرات اس سے کہیں زیادہ تباہ کن ہیں جن کی ایک ہلکی سی جھلک اوپر دکھائی گئی ہے۔ ذلت، رسوائی، تباہی اور خاندان کی بربادی نشہ باز کا مقدر ہے۔ جس سے وہ کسی صورت بچ نہیں سکتا۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے آپ کو اور اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب اور معاشرے کے ہر فرد کو منشیات کے مکروہ چنگل سے بچانے کیلئے کمر بستہ ہو جائیں اور نہ صرف یہ کہ پاکستان کے نوے لاکھ نشہ کے عادی افراد میں کسی ایک کا بھی مزید اضافہ نہ ہونے دیں بلکہ ان نوے لاکھ افراد کو بھی ایک مریض سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی کریں ان سے ہمدردی اور پیار سے پیش آئیں اور ان کا علاج معالجہ کروا کر انہیں واپس ان کی اسی ہنستی کھیلتی، سماجی ، معاشی اور گھریلو زندگی میں واپس لائیں جہاں سے وہ ہم صحت مندوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے نکل گئے تھے۔ ہم والدین ہیں یا اولاد استاد ہیں یا شاگرد، عالم دین ہیں یا عوامی نمائندے، افسر ہیں یا ماتحت، مالک ہیں یا ملازم سرکار ہیں یا عوام، پاکستان کے حال اور مستقبل کو منشیات کی وبا سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ہم سب پر یکساں عائد ہوتی ہے۔ ہم چاہیں تو اس طوفان کو روک سکتے ہیں جو ہمارے معاشرے کی بنیادیں ہلانے کے لئے تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ یاد رکھئے کہ جب تک سب محفوظ نہیں کوئی بھی محفوظ نہیں۔