گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے وفدکے ہمراہ تحریک اسلامی سوڈان کے آٹھویں جنرل کنونشن میں شرکت کا موقع ملا۔ کنونشن میں تقریباً 7ہزارمنتخب نمائندگان شریک تھے۔ اس کا بنیادی مقصدتحریک کے تنظیمی، دعوتی اور تربیتی امور کا جائزہ لینا اور اس کی مجلس شوری کا انتخاب تھا ۔اس منتخب شوری نے اگلے مرحلے میں تحریک کے سربراہ کا انتخاب اور آئندہ صدارتی الیکشن کیلئے امیدوار تجویز کرناتھا۔ یہ کنونشن اس حوالے سے بھی خاص اہمیت کا حامل تھاکہ حالیہ عرب انقلابات کے بعد ان ممالک میں الیکشن کے ذریعے برسراقتدار آنیوالی اسلامی جماعتوں کے سربراہان اور باقی دنیا سے اسلامی تحریکوں کے وفود پہلی دفعہ ایک جگہ جمع ہو رہے تھے۔ اخوان المسلمون مصرکے مرشد عام ڈاکٹر محمدبدیع ، تیونس میں حکمران النہضہ پارٹی کے سربراہ راشد الغنوشی، حماس کے سربراہ خالد مشعل،لیبیا میں اخوان المسلمون کے سربراہ بشیر الکتبی اور ترکی،مراکش اورملائیشیا میں برسراقتدار پارٹیوں کے نمائندگان سمیت تقریباً30 ممالک سے اسلامی جماعتوں کے سربراہان شریک تھے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیاکی بھی بھرپور نمائندگی موجود تھی جبکہ پاکستان کے علاوہ آزاد کشمیر کا وفد بھی تمام اجلاسوں میں موجود رہا۔ ان تمام تحریکوں کے قائدین کیساتھ ملاقاتیں ہوئیں اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر، نائب صدر عثمان علی طہ، سپیکر پارلیمنٹ احمد الطاہرکیساتھ بھی مفید ملاقاتیں ہوئیں۔
مصر، تیونس،مراکش، لیبیااور یمن سمیت کئی عرب ممالک میں جمہوری طریقے سے بڑی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ امریکہ کے ہاتھوں یرغمال غلام قیادتوں کو زوال آیا ہے۔شام سمیت کئی دیگر ممالک میں بھی عوام اپنے حقوق اور ڈکٹیٹرشپ سے نجات کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ جن ممالک میں انقلاب کے ذریعے تبدیلی عمل میں آچکی ہے وہاں کے عوام نے آزاد مرضی سے اپنے لیے اسلامی قیادت کا انتخاب کیا ہے۔ تبدیلی کے بعد یہ حکومتیں امانت و دیانت اور بہترین صلاحیتوںکیساتھ ریاستی امور چلا کراپنے ہم وطنوں کو ایک نئے اسلوب حکومت سے آشنا کر رہی ہیں۔ اگرچہ ان ممالک میں سیکولر لابی بیرونی حمایت کے ساتھ ہر قاعدے ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے’ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے‘ کی ریت اپنائے ہوئے ہے۔ ہر جگہ معیشت تباہ حال ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کے اللوں تللوں اورناقابل تصور حدتک کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہیں اور بیرونی ملکوں میں موجود دولت کو واپس لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود نومنتخب حکومتیں آگے بڑھ رہی ہیں اوروسیع امکانات کے در وا ہو رہے ہیں ۔ اس وقت چھ ممالک میں اسلامی تحریکیں حکومت کے تجربات سے گزر رہی ہیںاور اپنے اپنے حالات کیمطابق اور دستیاب و سائل کیساتھ تعمیر کاعمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حوصلہ، تدبر، تحمل، صبر اور حکمت کے ساتھ بین الاقوامی پروپیگنڈے اور سازشوں کے باوجود سمت کو درست رکھنا، اپنی ترجیحات کو نظرانداز نہ کرنا، عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچنے دینااور اللہ کے بھروسے پر مسلسل آگے بڑھتے جانا، یہ وہ حکمت عملی ہے جو ان ممالک میں اسلامی تحریکوں نے اپنائی ہوئی ہے۔ حالات کیساتھ حکمت عملی میں فرق ہو سکتاہے لیکن مقاصد کی طرف پیش قدمی مشترکہ خصوصیت ہے۔
جن ممالک میں اسلامی تحریکیں برسراقتدار آئی ہیں وہاں ایک نیا تجربہ بھی اپنی تکمیل کو پہنچ رہا ہے کہ تحریک اور حکومت وقت کے درمیان گرم جوشی کا تعلق تو موجود ہے لیکن عملاًیہ دو الگ الگ اکائیاں ہیں۔سوڈان میں اسلامی تحریک کے سربراہ ملک کے سینئر نائب صدر ہیں اورصدر سوڈان کیساتھ پیشتر وقت کانفرنس میں شریک بھی رہے لیکن اسلامی تحریک اور حکومت کی اپنی اپنی ترجیحات اور اپنے اپنے دائرہ کارہیں۔ مصر میں بھی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی حکومت میں ہے جبکہ اخوان المسلمون معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ترکی کے تجربے سے ہم پہلے سے واقف ہیں۔ ان ممالک میں اسلامی تحریک اورانکی سیاسی جماعتیں الگ الگ ہیں۔ حکومت اور اسلامی تحریک کے درمیان تعلقات کے تجربوں سے گزر کر انھوں نے ایک حکمت عملی وضع کرلی ہے۔ دنیاکی باقی اسلامی تحریکوں کوان ملکوں کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے اور اپنے حالات کیمطابق سیاسی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔
اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ امت کے تمام مسائل اور مشکلات پر ان تحریکوں اور قائدین کا مﺅقف یکساں اور انداز فکر ایک جیسا تھا۔ مختلف مجالس میں ان مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال ہوا۔ کانفرنس کے دوران ہی غزہ پر اسرائیلی حملے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ خالد مشعل نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنا اصولی موقف پیش کیا اور اسرائیل کے پست حوصلہ اور فلسطینیوں کے پر عزم ہونے سے شرکاءکو آگاہ کیا۔اہل غزہ کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہوئے شرکائے کانفرنس نے اہل فلسطین کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ شام سے اخوان المسلمون کے وفد نے اپنے ہاں صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ شامی عوام کی غالب اکثریت بشار حکومت سے نجات چاہتی ہے۔ امریکہ اور یورپ روس اور چین کے ویٹوکا بہانہ بنا کر کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے در حقیقت شام کی تباہی چاہتے ہیںتاکہ مسلم ممالک کے درمیان اس مسئلے پر اختلافات کو مزید بڑھاوا دیکر اپنے مقاصد پورے کرسکیں ۔ کانفرنس کی طرف سے اپیل کی گئی کہ مسلم ممالک شام کا مسئلہ حل کرانے اور ایک قابل قبول حکومت کے قیام کیلئے اپنا کردار اداکریں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی کانفرنس میں پوری تفصیل کیساتھ بات ہوئی۔ افغانستان، کشمیر اور برماسمیت امت کے مسائل پر ایک خصوصی سیشن ہوا اور اس میں یہ طے کیا گیا کہ مسلم ممالک اور اسلامی تحریکوں کی کانفرنسوں میں مسئلہ کشمیر کوکسی طورنظر انداز نہیں کیا جائیگا۔ مصر، تیونس،ترکی، لیبیا اور بعض دیگر ممالک کی قیادت نے کہا کہ پاکستانی حکومت یا سفارتخانے کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی سرگرمی موجود نہیں ہے ۔ انھوں نے دعوت دی کہ پاکستان اور کشمیر سے قیادت آئے اور عالم اسلام کی یونیورسٹیوں، اداروں اور دانشوروں کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کے تمام پہلوﺅں کو اجاگر کرے اورعوام کو آگاہی دے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کی قیادت کیخلاف یکطرفہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش کوسیکولرریاست اور بھارت کی کالونی بنانے کی کوششوں کے حوالے سے کانفرنس کے شرکاءکو آگاہ کیاگیا۔کئی عالمی وفود نے بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک پر آنیوالی آزمائش کا تذکرہ کیا اور حکومت کے انتقامی رویے کی مذمت کی۔اس حوالے سے طے کیا گیا کہ بنگلہ دیشی حکومت سے بھی رابطہ کیا جائیگااور جن مسلم ممالک کا بھارتی حکومت کے ساتھ رابطہ ہے وہ بھی اس ایشو پراس سے بات کریں گے اور ان غیر قانونی، غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کے خاتمے کیلئے عالمی سطح کے تمام اداروں میں بھی آوازبلند کی جائیگی۔
مشترکہ اعلامیہ میں بھی مسئلہ کشمیر ،بنگلہ دیش اور برماکی صورتحال کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ کانفرنس میں اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ مسلم دنیا کا اصل مسئلہ امریکی مداخلت ہے۔ یہ مداخلت سیاسی دائرے میں بھی ہے، عسکری اور معاشی دائرے میں بھی،اور تہذیب و ثقافت اور اخلاقیات اور عقیدے کے دائرے میںبھی ۔ سب اس پر متفق تھے کہ وار آف ٹیرر کے نام پرشروع کی جانے والی جنگ اصلاً مسلم دنیا کے وسائل پرامریکی قبضے کی جنگ ہے ، مسلمانوں کے ساتھ اس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی یہ سب کی متفقہ رائے تھی کہ وہاں امریکہ اور نیٹو فورسز کا قبضہ ناجائز ہے۔دنیا میں فساد، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔وہ افغانستان سے نکلے گاتو دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا اور بنیادی مسائل کے حل کا راستہ نکلے گا۔ (جاری)