نام تو اس کا شاہدہ ہے۔ مگر عرف عام میں سب کالونی والے اس کو شاداں، شاداں کہہ کر بلاتے ہیں۔ ایک وقت تھا۔ جب پوری کالونی میں اسکی ٹھاٹھ، رعب و دبدبہ تھا۔ پوری کالونی کی خواتین اسکے اشارے پر چلتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کے لوگ شاداں کو قابو کرنے میں کامیابی سمجھتے تھے۔ کہ اسکے ساتھ بڑا ووٹ بنک تھا۔ اسکا یہ ٹھاٹھ تقریباً دس سال پہلے جب میں نے ہنزہ بلاک میں رہائش رکھی، تب عروج پر تھا!۔ اسکے تین جواں بیٹے اور ایک نہایت خوبصورت بیٹی جوکہ پوری کالونی میں چلتی پھرتی نمایاں نظر آتی تھی۔ اور اسے دیکھتے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا۔ کہ اسے غریب گھر کی بجائے کسی محل میں ہونا چاہئے تھا۔ ہر عروج کو زوال لازمی امر ہے۔ کل شام جب شاداں جیسی مضبوط اور رعب و دبدبے والی عورت میرے پاس آئی اور اپنی تنخواہ میں سے ایڈوانس پیسے مانگے کہ میں نے اپنے شوہر کو ہسپتال دکھانا ہے۔ اور ساتھ ہی اپنے بیٹوں کی بے حسی اور ماں باپ کا ساتھ چھوڑنے کی روداد سناتے ہوئے بلبلا کہ رونے لگی۔ کہ کس طرح ایک، ایک بیٹا اپنی شادی کے بعد ماں، باپ سے دور ہوتا چلا گیا، اپنے اپنے مفادات میں اپنے پیدا کرنے، پالنے والوں کو بوجھ جانتے ہوئے دنیا کی نفسانفسی میں کھو گئے۔ جبکہ بیٹی اپنی من مانی کرنے کی سزا میں شادی کے 8 ماہ بعد ہی سسرال کے برے سلوک کی بھینٹ چڑھ کہ اس دنیا ہی سے رخصت ہوگئی۔ شاداں کی نافرماں، مفاد پرست اولاد نے جس طرح آج مضبوط، پوری کالونی کی طاقتور عورت کو اپنے کرتوتوں سے نحیف اور کمزور عورت بنا دیا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے مجھے اپنے پیارے پاکستان آج کل جن حالات سے دوچار ہے۔ اس سے موازنہ کرنے میں ذرا برابر مشکل پیش نہیں آرہی۔ کہ! کس طرح مفاد پرستی کے کھیل میں اندھا دھند نام نہاد قائدین نے اسکی جڑیں کھوکھلی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وطن عزیز میں جب بھی عوام محسوس کرتے ہیں۔ کہ! پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ فوراً اقتدار کے حریص اقتدار پر قبضہ جمانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے اقتدار کا حصول چاہتے ہیں۔ انکی آنکھوں پر اقتدار کے حصول کی خواہش کی پٹی انہیں یہ دیکھنے ہی نہیں دیتی کہ انکے ہر عمل سے پاکستان کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ ہوس اقتدار میں اندھے حقیقت میں اپنے اقتدار کے حصول کیلئے پاکستان کا نام استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان سے پیار نہیں، کیونکہ جو پیار کرتے ہیں۔ سچا پیار وہ نقصان پہنچانا تو دور کی بات معمولی تکلیف دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھر قوم ان راہنمائوں کو پاکستان سے مخلص کیسے سمجھ لے۔ قومی راہنمائوں کا پاکستان کے بارے میں طرز عمل تو پوری قوم کے لئے مشعل راہ ہوتا ہے۔ قوم باشعور ہوچکی ہے۔ تخریبی راستوں کی بجائے تعمیری سوچ چاہتی ہے۔ چونکہ پاکستانیوں کو فریب دینا اب آسان نہیں رہا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ تمام قومی راہنما اور قائدین اپنا قبلہ درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اور جس سرزمین کے طفیل آج ہم عالیشان زندگی گزار رہے ہیں۔ جو ہماری پہچان، ہماری جان اور ہمارا وطن ہے۔ جس نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔ اور جو ہمارے بزرگوں کی ہمارے پاس امانت ہے۔ اسکے ساتھ دل و جان سے مخلص ہو کر آئندہ فیصلے کریں۔ صبرو برداشت کا دامن تھام کر اسکی تعمیرو تر قی میں جو جہاں ہے۔ اپنا حصہ ڈالتا ر ہے۔ کیا ہم صرف پاکستان کے لئے، اعلیٰ اقدار کا دامن نہیں تھام سکتے، ’’صرف پاکستان کے لئے !!
مفادات کا کھیل
Dec 11, 2014