”علی ہجویریؒ یونیورسٹی؟“

سیّد علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کے 971ویں سالانہ عُرس کے موقع پر ایوانِ کارکنانِ پاکستان لاہور میں مجاہدِ تحریکِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) کے قائم کردہ دو معرُوف نظریاتی اداروں، نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے منعقدہ تقریب ہر لحاظ سے منفرد تھی۔ مہمانِ خصوصی پنجاب کے وزیرِ اوقاف و مذہبی امور میاں عطا محمد مانِیکا ¾ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد ¾ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر ¾ مُفتی محمد رمضان سیالوی ¾ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اور مُفتی محمد عمران اُلحسن فاروقی نے اپنے اپنے انداز میں حضرت داتا گنج بخشؒ کی تعلیمات خاص طور پر اُن کی تصنِیف ”کشف اُلمحجُوب“ کے حوالے سے برِصغیر میں اشاعتِ اسلام کا تذکرہ کِیا اور اِس بات پر زور دِیا کہ ہر مسلمان کے لئے اِس مقدّس کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔

میاں عطا محمد مانِیکا نے کہا کہ ”برِصغیر پاک و ہِند میں مسلمانوں کی کئی سو سال کی حکمرانی کے دوران بے شمار شمشِیر زَن تو پیدا ہُوئے لیکن صوفیائے کرام کی تعلیمات سے ہی صاحبانِ کردار لوگ پیدا ہُوئے اور اگر اِن دونوں طبقوں میں ہم آہنگی اور یگانگت ہوتی تو آج برِصغیر میں ایک بھی غیر مُسلم نہ ہوتا۔“ مانِیکا صاحب نے کہا کہ ”صوفیائے کرام کے کردار اور افکار کی بدولت ہی ہمیں آزادی کے ثمرات نصیب ہُوئے اور پاکستان کی نعمت بھی لیکن جب ہم نے کُفرانِ نعمت کِیا تو ہم آدھی نعمت سے محروم ہو گئے۔ ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد نے دو قومی نظریہ کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام کی گراں قدر خدمات کی تعریف کی اور میاں عطا محمد مانِیکا نے کہا کہ ”پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قائدِاعظم کی 11 اگست 1947ءکی تقریر کو بنیاد بنا کر نظریہ¿ پاکستان کو مُتنازع بنایا جا رہا ہے۔“
اپنی اِس تقریر میں قائدِاعظم نے قیام پاکستان کے بعد ہِندوﺅں ¾ سِکّھوں ¾ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کو مسلمانوں کے برابر مذہبی ¾ سیاسی ¾ سماجی اور معاشی حقوق دینے کا اعلان کِیا تھا۔ اور یہ اعلان اولیائے کرام اور صوفیائے عُظّامؒ کی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ 1193ءمیں دہلی کے آخری ہندو راجا پرتھوی راج چوہان کی شکست اور اُس کے قتل کے بعد غزنی کا سُلطان شہاب الدین محمد غوری اجمیر میں نائبِ رسول حضرت خواجہ غریب نواز مُعین الدّین چشتیؒ کی خدمت میں بہت سی دولت لے کر حاضر ہُوا تو آپ نے کہا کہ ”یہ اچھی چیز نہیں ہے اور ہوتی بھی میں اسے قبول نہ کرتا۔ تم اِسے اجمیر کے غریبوں میں بانٹ دو!“ (اجمیر کے غریبوں سے مُراد ہر مذہب کے غریب لوگ تھے) غوری نے کہا کہ ”حضور! کوئی حُکم فرمائیں!“ تو خواجہ غریب نوازؒ نے کہا کہ ”مقتول پرتھوی راج چوہان کے بیٹے گووِند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!“ غوری حیران ہُوا اور بڑے ادب سے پُوچھا کہ ”حضُور! اِس کی وجہ؟“ تو آپ نے فرمایا کہ ”اِس طرح مفتُوح ہندو قوم فاتح مسلمان قوم کا اقتدار دِل سے قبول کر لے گی۔“ شہاب الدّین نے حُکم کی تعمیل کی اور گووند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دِیا۔ اجمیر تشریف لے جانے سے قبل حضرت خواجہ نوازؒ نے لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر چِلّہ کشی کی اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہُوئے کہا تھا
”گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نُورِ خُدا
ناقِصاں را پِیر کامل کاملاں را راہنما“
میاں عطا محمد مانِیکا نے صُوفیائے کرام کے پیدا کردہ صاحبانِ کردار لوگوں کا ذِکر کِیا ہے اُن میں سے عاشقِ رسول ¾ شاعرِ مشرق اور مصّورِ پاکستان حضرت علّامہ اقبال بھی ایک ہیں۔ حضرت داتا صاحب کو ہدیہ¿ خدمت پیش کرتے ہُوئے علّامہ صاحب نے کہا تھا
”سیّد ہجویر مخدُومِ اُمّم
مرقدِ اُو پِیر سنجر را حرم
بند ہائے کوہسار آساں گِیسخت
در زمینِ ہِند ¾ تُخمِ سجدہ رِیخت“
یعنی ”حضرت سیّد علی ہجویریؒ اُمتّوں کے مخدوم ہیں۔ آپ کا روضہ خواجہ مُعین اُلدّین چِشتی کے لئے حرم ہے۔ آپ نے حصولِ حق کی راہ میں حائل پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دِیا اور ہندوستان میں اسلام کا بیج بو دِیا۔ حضرت داتا گنج بخش نے ہندوستان میں اسلام کا جو بیج بویا تھا، اُس کی آبیاری دوسرے کئی صُوفیائے کرام نے کی اور مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے قیام کا خواب دیکھنے کی سعادت علّامہ اقبال کو حاصل ہُوئی۔
علّامہ اقبالؒ نے برِصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کے لئے حضرت قائدِاعظم کا انتخاب کِیا۔ قوم نے علّامہ صاحب کے انتخاب کی داد دی۔ حضرت قائدِاعظم نے خود کو مسلمانوں کی قیادت کا اہل ثابت کر دِیا۔ جو عُلماءاور مذہبی جماعتوں کے قائدین گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں اپنی مرضی کا ”نظریہ¿ پاکستان“ مُسلّط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کے اکابرین نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی اور علّامہ اقبال اور قائدِاعظم کے خلاف کُفر کے فتوے دِیئے تھے۔ یہی لوگ ”نظریہ¿ پاکستان“ کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ قائدِاعظم نے اپنی تقریروں میں کئی بار واضح کِیا تھا کہ ”پاکستان میں "Theocracy" (مولوِیوں کی حکومت) نہیں ہو گی۔ طالبان اور دہشت گردوں کے دوسرے گروہوں نے علّامہ اقبال اور قائدِاعظم کے ”نظریہ¿ پاکستان“ کو کتنا نقصان پہنچایا۔ مسجدوں امام بارگاہوں اور اولیائے کرام کے مزارات کی بے حُرمتی سے بھی باز نہیں آئے۔ وہ گرِجا گھروں میں دہشت گردی اور وہاں مصروفِ عبادت عیسائیوں کے قتل کو ”شریعت کے عین مطابق“ قرار دیتے ہیں۔
میاں عطا محمد مانِیکا نے محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے تحت ”کشف اُلمحجوب“ کے مستند نُسخے کی درس و تدریس کا اہتمام کرنے کا اعلان کِیا تو تقریب کے سٹیج سیکرٹری اور ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید نے کہا کہ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں یومِ اقبال کے موقع پر الحمرا لاہور میں منعقدہ تقریب میں میری درخواست پر جنابِ مجید نظامی نے اُن سے وعدہ لِیا تھا کہ وہ لاہور میں حضرت داتا گنج بخش کے نام سے ”علی ہجویری یونیورسٹی“ قائم کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جنابِ مانِیکا اپنے قائدکو اپنا وعدہ پُورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں؟
وزیرِاعظم نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے والدِ مرحوم میاں محمد شریف حضرت داتا گنج بخشؒ کے بے حد عقیدت مند تھے۔ اِس لحاظ سے اگر میاں صاحبان ¾ سرکاری یاذاتی وسائل سے ”علی ہجویری یونیورسٹی“ قائم کر دیں تو اُن کے والدِ محترم کی رُوح بھی خُوش ہو جائے گی۔ اگر سات سمندر پار رہ کر پاکستان میں سیاست کرنے والے برطانوی شہری کے نام سے کراچی اور حیدر آباد میں ”الطاف حسین یونیورسٹی“ کا پروگرام بنایا جا سکتا ہے تو ”داتا کی نگری“۔ کہلانے والے لاہور میں ”علی ہجویری یونیورسٹی“ قائم کیوں نہیں کی جا سکتی؟ تقریب کے اختتام کے بعد جناب مجید نظامی (مرحوم) کے ایک عقیدتمند میاں محمد تنویر ابراہیم نظامی کی طرف سے 120 اصحاب کی لنگر (حلوا مانڈا) سے تواضع کی گئی۔
”اِیں سعادت بروزِ بازُو نیست“

ای پیپر دی نیشن