سربراہ افغان انٹیلی جنس کی اشرف غنی کے دورہ پاکستان پر تنقید، عہدے سے مستعفی

کابل (بی بی سی+نوائے وقت رپورٹ+اے ایف پی) افغانستان کی خفیہ ایجنسی دی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے سربراہ رحمت اللہ نبیل نے صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان اور ان سے پالیسی اختلافات کے بعد عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جسے صدر اشرف غنی نے منظور کر لیا ہے۔ یہ اعلان رحمت اللہ نبیل کے دفتر کی جانب سے میڈیا کو جاری کیے گئے خط میں کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق رحمت اللہ نبیل نے صدر اشرف غنی کو لکھے جانے والے خط میں کہا ہے کہ مجھ پر صدر کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کا بے انتہا دباؤ ہے۔ میں چند حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کرتا ہوں۔‘ رائٹر کے مطابق رحمت اللہ نبیل نے خط میں کہا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران صدر اشرف غنی کی جانب سے ان پر عائد کی گئی پابندیاں ناقابلِ قبول ہیں۔ واضح رہے کہ رحمت اللہ نبیل کا استعفی طالبان کی جانب سے حالیہ مہینوں کے دوران قندوز شہر پر قبضے اور قندھار کے ہوائی اڈے پر طالبان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں 46 افراد کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔ نبیل نے سرکاری فیس بک پیج پر غیرمعمولی بیان جاری کیا تھا۔ اس کے فوری بعد ہی پاکستان افغانستان رہنمائوں نے افغان امن مذاکرات بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ رحمت اللہ نبیل کا نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ قندھار ائر فیلڈ میں بے گناہ شہریوں کو ایسے وقت قتل کیا گیا جب وزیراعظم نواز شریف نے پھر افغانستان کو دشمن قرار دیا۔ انہوں نے صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان پر بھی تنقید کی۔ فیس بک پر رحمت اللہ نبیل نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اے ایف پی کے مطابق رحمت اللہ نبیل نے طالبان کے ساتھ امن عمل بحال کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر پیشرفت پر اختلافات کے باعث استعفیٰ دیا ہے۔ اپنے خط میں انہوں نے پالیسی امور پر اشرف غنی سے اختلاف کیا ہے۔ اے این این کے مطابق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے بعد یہ پہلا بریک تھرو ہوا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان مخالف انٹیلی جنس سربراہ رحمت اللہ نبیل کو عہدے سے ہٹا دیا۔ اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے بعد افغان صدر نے وطن واپسی پر پہلی فرصت میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث افغان انٹیلی جینس چیف رحمت اللہ نبیل کو عہدے فارغ کیا اور برطرف ہونے والے افغان انٹیلی جنس چیف نے دعویٰ کیا کہ اس نے اشرف غنی کے ساتھ پاکستان سے متعلق پالیسیوں پر اختلافات کے باعث عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔ دوسری جانب سابق افغان صدر حامد کرزئی نے صدر اشرف غنی کے وزیرستان کے باشندوں کو پاکستانی قرار دینے کا بیان مسترد کر دیا ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق سابق صدر حامد کرزئی کے دفتر سے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے صدراشرف غنی کے خطاب کے حوالے سے بیا ن جاری کیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ حامد کرزئی نے امید ظاہر کی ہے کہ اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے خطے میں ا من واستحکام آئے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہونگے۔ تاہم حامد کرزئی نے افغان صدر اشرف غنی کے وزیرستان کے قبائلیوں کو پاکستانی کہنے کا بیان سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ڈیورنڈ لائن برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے دوران افغانستان کے سینے پر تیار کی گئی اس وجہ سے اسے افغانستان کے عوام کی طرف سے قبول نہیں کیا جائیگا۔کرزئی نے کہا کہ وزیرستان کے رہائشیوں کو ڈیورنڈ لائن کے اس طرف منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا اس لیے وزیرستان کے رہائشی پاکستان کے مہاجر نہیںانکے افغان عوام کی طرح برابرکے حقوق ہیں۔ رائٹر کے مطابق اشرف غنی نے بعد میں جاری بیان میں کہا ہے کہ ملکی سکیورٹی صورتحال کے باعث وہ نہیں چاہتے تھے کہ انٹیلی جینس چیف استعفیٰ دیں تاہم ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔ اے ایف پی کے مطابق نبیل کا استعفیٰ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے دھچکا ہے۔ ملک پہلے ہی مستقل وزیر دفاع سے محروم ہے اور سکیورٹی صورتحال بھی بہتر نہیں۔ استعفیٰ سے قبل فیس بک پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اپنا خط لوگوں کے لیے عام کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان افغانستان میں حکومت مخالف عناصر کی حمایت کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے اشرف غنی کے پاکستان میں بیان پر ردعمل میں استعفیٰ دیا۔ ذرائع کے مطابق نبیل پشاور کے ایک مہاجر کیمپ میں مقیم رہے ہیں۔ اور وہ افغانستان اور طالبان کے درمیان جلد مذاکرات کی بحالی کے حوالے سے مایوسی کا شکار تھے کہ وہ ان افراد میں شامل ہیں جو مصالحتی عمل کے خلاف ہیں۔
کابل،پشاور(اے این این، آن لائن)افغان سکیورٹی فورسز نے پاکستان کے مطالبے پرکالعدم تحریک طالبان پاکستان شمالی وزیرستان کے دہشت گرد آریان کو ہلاک اور 15ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ جھڑپ افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیا میں ہوئی ، آریانہ حکیم اللہ محسود کا قریبی ساتھی تھا اورپکڑے جانیوالے دہشت گردوں کا تعلق بھی اسی گروپ ہے ۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا میں پاکستانی طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کی جھڑپ ہوئی ہے ،افغان سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کی اطلاع پر چھاپہ مارا تو ٹھکانے پر موجود دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر اندھا دھند فائرنگ شروع کرد ی جس پر سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی جو کئی گھنٹے تک جاری رہی۔ سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے ٹھکانے سے بھاری مقدار میں برآمد ہونے والا اسلحہ اور گولہ بارود اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ آریانہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے قبل یہ اس کا انتہائی قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا وہ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد میر علی سے افغانستان فرار ہو گیا تھا ۔ شدت پسندوں کیخلاف یہ کارروائی پاکستان کے مطالبے پر کی گئی ہے گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں میں پاکستان کی جانب سے افغان حکام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ جو پاکستانی دہشت گردو یہاںسے فرار ہو کر افغانستان میں آباد ہیں انکے خلاف وہاں کارروائی کی جائے۔

ای پیپر دی نیشن