اللہ تعالیٰ ان سب 48افراد کی مغفرت کرے جو رواں ہفتے پی آئی اے کے طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہوئے اور اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کیلئے آسانیاں پیدا کرے جو اپنے پیاروں کے جسم کے ٹکڑے حاصل کرنے کیلئے اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں اور اس بوسیدہ سسٹم کو کو کوس رہے ہیںجس نے انہیں انتظار کی طویل ہوتی سولی پر لٹکا رکھا ہے چونکہ انتظار کا ایک لمحہ بھی قیامت ہوتا ہے اس لیے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطاءفرمائے اور امتحان کی اس گھڑی میں انہیں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔ کیوں حادثاتی اموات زندگی بھر نہیں بھولتیں اور جن کے پیارے بچھڑ جاتے ہیں وہ تو زندگی بھر مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ان شہداءمیں ایک شہید ‘ ہم سب کا پیارا جنید جمشید بھی تھا جس کے دلفریب نغمے سن کر جسم میں حب الوطنی کی لہر دوڑ جاتی تھی یوں لگتا تھا جیسے پاکستان ہمارے جسم و جاں کا حصہ ہے۔ اسی طرح ایک وقت ایسا آیا کہ جنید جمشید بھی پاکستانی قوم کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ جسے ہر عمر کے لوگوں نے یوں پسند کیا کہ جیسے وہ جدید دور کے قومی ترانوں کا بانی بن چکا ہو خوبصورت، خوش لباس، نوجوان، تعلیم یافتہ جنید جمشید جیسے جیسے شہرت کی سیڑھیاں طے کرتا گیا۔ لوگوں کی جانب سے اس کیلئے محبت اور بڑھتی گئی۔ دنیا جانتی تھی کہ اس کو آگے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کا ہر نغمہ لوگوں کیلئے بریکنگ نیوز بن جایا کرتا تھا۔ لوگوں نے یہ خبر بھی بریکنگ نیوز کی طرح ہی سنی تھی کہ جنید جمشید نے اپنے کیرئیر کے عروج پر میوزک چھوڑ دیا ہے۔اپنے عروج پر جب جنید جمشید نے گانے کو چھوڑ کر جس سلسلے کو اپنایا، اس نے ان کو صرف لوگوں کیا پیارا ہی نہیں بنایا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کا بھی پیارا بنا دیا۔ اپنی آواز کو اب انہوں نے گانوں کے بجائے ثناءخوانی اور نعت خوانی کیلئے مختص کردیا اور اپنے شب و روز کو دین اسلام کی اشاعت میں گزارنے لگے اور لاکھوں لوگوں کی ہدایت کا وسیلہ بنے۔ آج وہ ہم میں نہیں۔ دل سب کچھ جانتے ہوئے بھی کسی معجزے کا منتظر ہے کہ کوئی آکر کہہ دے کہ خبر غلط تھی۔ جنید جمشید زندہ ہیں۔ ہاں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ہمارے دل میں، ہماری جان میں اور ”دل دل پاکستان میں“ ۔ مجھے یاد ہے کہ 1987 میں پاکستانی ٹیلی ویژن پر ایک گانا سنائی دیا کرتا تھا۔ چار لڑکے ایک کھلی جیپ میں بیٹھ کر ایک سبزہ زار میں آتے ہیں اور گانا شروع کر دیتے ہیں۔ انہی کے درمیان سبز شرٹ اور سفید پتلون میں ملبوس ایک دبلا پتلا نوجوان بھی ہے، جس کی آواز دھیمی اور ملائم ہے، لیکن اس کے باوجود آواز، شاعری، موسیقی، اور ان سب سے بڑھ کر کچھ ایسا جوش و جذبہ ہے کہ ساری چیزیں مل کر ایسی کیمسٹری پیدا کرتی ہیں کہ یہ گانا ملک کے ہر دل میں دھڑکنے لگتا ہے۔ جنید جمشید گلوکاری کی طرف منصوبہ بندی سے نہیں آئے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ انہوں نے گلوکاری اپنے بھائی ہمایوں کی وجہ سے شروع کی۔میں گٹار بجاتا تھا وہ گاتا تھا۔ جب وہ نہیں ہوتا تھا تو میں اس کے گانوں کی ریکارڈنگ مسلسل سنا کرتا تھا، اور ساتھ ساتھ گاتا رہتا تھا۔ اس طرح میں بھی گانے لگا، حالانکہ اسکی آواز مجھ سے کہیں اچھی ہے۔ وہ بے قرار شخصیت تھے اس لیے وہ گلوکاری کے پڑاو¿ پر بھی نہیں رکے۔آج جب میں ٹی وی سکرینوں پر ایک پہاڑی کے دامن میں لوگوں کے ازدحام کو بھڑکتے ہوئے شعلوں کے گرد حلقہ زن دیکھ رہا ہوں تو ذہن میں یہ احساس موجود ہے کہ انھی شعلوں کے اندر کہیں ایک بےقرار جسم بھی تھا، جو دوست کم اور ہمنوا زیادہ تھا جو 2007 میں صدر پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز وصول کرکے بھی بے قرار تھا کہ کہیں اس کا حقدار کوئی اور تو نہیں تھا۔۔۔!!!
غمگینی صرف اس بات کی نہیں کہ جنید جمشید ہم میں نہیں رہے بلکہ فکر اس بات کی بھی ہے کہ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا جن جہازوں کو دوسرے ممالک اپنی حدود میں داخل نہیں ہونے دیتے آج وہ ہمارے ”سسٹم“ کا حصہ ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پی آئی اے کے اس طیارے میںجنید جمشید تھے یا ڈی سی او چترال تھے اس لیے اس واقعہ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ حکمرانوں نے ایک ایک جان کا حساب دینا ہے جو ان کے دور میں ہوتی رہیں۔حکومت کی جانب سے اس حوالے سے محض ہلکی سی انگڑائی لی جاتی ہے جیسے مذکورہ حادثے میں بھی وزیر داخلہ نے ’فوری ‘ اقدام کرتے ہوئے 5رکنی کمیٹی تو بنادی ہے جو چند روز میں محض ایک رپورٹ تیار کرےگی۔ اسکے بعد ہمارے حافظے سے یہ حادثہ بھی نکل جائیگا۔ کیونکہ بطو ر قوم ہم ڈھیٹ ہو چکے ہیںاور ایسے سانحات کو ہم سیریس بھی نہیں لیا کرتے اور ملک کے دیگر اداروں کی طرح پی آئی اے میں بھی اس وقت اخیر کی کرپشن ہو رہی ہے اور کمیشنیں وصول کی جارہی ہیں جبکہ انتظامیہ مسافروں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔ جن جہازوں کی عمریں پوری ہو چکی ہیں وہ جہازاس ’عظیم‘بیڑے میں شامل کیے جا رہے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں ماضی میں بھی بے شمار فضائی حادثات ہوئے ہیں جن میں نہایت قیمتی جانوں کا ضیاع معمول کی بات بن چکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری عوام اور ہمارے ہیروز اس ملک میں اسی طرح مرتے رہیں گے؟ کیا ان حکمرانوں میں انسانیت ختم ہو چکی ہے۔ یقین مانیں اب یہی ہو گا کہ کہ ہمارے ادارے اب بھی سبق نہیں سیکھیں گے بلکہ اس حادثے کی آڑ میں نئے ”فنڈز‘ منظور کروانے کی دوڑ میں لگ جائیں گے ، اس وقت بھی پی آئی اے کے بیٹرے میں 747اور737کباڑ میں تبدیل ہو چکے ہیں مگر انہیں چلایا جا رہا ہے کیوں کہ ہماری یادداشت بہت کمزور بنا دی گئی ہے کسی ایک بڑے حادثے کے بعد چند گھنٹوں میں ہم نارمل ہو جاتے ہیں، ابھی پوری قوم امجد صابری کے قتل پر نوحہ کناں تھی جنہیں بھول بھی گئی ہے۔ ہم جنید جمشید کی شہادت کو بھی جلد ہی بھول جائیں گے کیوں کہ ہماری تربیت میں یہ بات شامل کردی گئی ہے کہ بھول جا ، بس بھول جا اور آگے کسی نئے سانحے کیلئے اپنے آپ کو تیار کر! کیوں کہ ”دل دل پاکستان“ کہنے والے اسی طرح اس ملک سے جاتے رہیں گے!!!
”دل دل پاکستان“
Dec 11, 2016