ہمارا شہر کراچی ایک منفرد شہر ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر۔ دلّی توکئی بار اجڑی اور کئی بار بسائی گئی اور اس کے باوجود اسکی راجدھانی والی حیثیت برقرار رہی لیکن کراچی کو ایک ہی جھٹکے میں ایک ڈکٹیٹر نے اس حیثیت سے محروم کر دیا ۔ یہ اور بات کہ اس گناہ کا وہ آج تک خمیازہ بھگت رہا ہے اور بار برداری کے ٹرکوں کی زینت بنا ہو ہے اور وہ بھی بلا شر کتِ غیرے نہیں۔کیوں کہ مسرت شاہین کی تصاویر کو بھی یہ ہی سعادت ملی ہوئی ہے۔دلّی تو دلّی سے دہلی اور پھر نئی دہلی بن کر مشہور ہو چکی۔ لیکن ، کراچی میں ، نئی کراچی ایک بدنما داغ کے سواکچھ نہیں۔ دوسرا ظلم یہ ہے کہ سب سے زیادہ ریونیو جینیریٹ کرنے کے با وجود، بنیادی سہولتوں سے محروم اس شہر میں لوڈ شیڈنگ مستقل ڈیرہ جمائے ہوئے ہے اور سونے پہ سہاگہ کہ سرکار ماننے کو تیار نہیں کہ یہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔بات ٹھیک ہی لگتی ہے کہ ہم نے بھی بھری دوپہر میں اسٹریٹ لائیٹس کو اکثر و بیشتر روشن ہی دیکھا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بتانے میں کوئی عار نہیں کہ ایک بار ہم نے بھی سرکار کی طرح اس ہی قسم کی غلط بیانی کا مظاہرہ کیا تھایہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی انلائٹمنٹ enlightenment) ( نے پَر پُرزے نہیں نکالے تھے اور کراچی عروس البلاد اور روشنیوں کے شہر کے ناموں سے پہچانا جاتا تھا۔ ہم نے اپنے ایک لاہوری دوست کو جب کراچی کے بارے میں بتایا کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے تو اسے کراچی دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ ہم نے اسے کراچی آنے کی دعوت دیدی لیکن مصروفیت کے باعث وہ کافی عرصہ تک کراچی نہ آسکا۔ جب آیا تو حالات بدل چکے تھے۔اب اینلائٹمنٹ کا دور دورہ تھا۔ ہم اسے لینے ایر پورٹ پہنچے تو رات کے تقریباً آٹھ بج رہے تھے ۔ہماری کار جب شاہراہِ فیصل سے گذر رہی تو ہمارے مہمان نے کہا ےار یہ کیسا روشنیوں کا شہر ہے کہ کاروں کی ہیڈ لائٹس کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ ہم پہلے تو سٹپٹائے پھر سنبھالا لیکر عرض کیا ارے یار ابھی تورات ہے نا، کل دن میں دیکھنا۔ سمجھدار آدمی تھا ، سمجھ گیا اور ہمیں مزید شرمندہ نہیں کیا۔۔ہمار یہ شہر، موسمی مذاق کا نشانہ بھی بنتا رہتا ہے اور یہاں کے باسی فخریہ کہتے ہیں ۔ ” صبح کو نزلہ، شام کو کھانسی ، ہائے کراچی ، ہائے کراچی! “کراچی کو غریب پرور شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ بڑا ہی (accomodative)شہر ہے جو آتا ہے اس پر اپنا حق جتاتا ہے۔ یہاں آنے والے زیادہ تر اکیلے آتے ہیں ، کماتے خو ب ہیں پر خرچ کچھ نہیں کرتے ،ساری رقم اپنے آبائی گاﺅں بھیج کر بھی کراچی والے ہی رہتے ہیں ۔ہماری پوسٹنگ جب کوئیٹہ میں ہوئی تو ہم نے وہاں مکان کرایہ پر لیا اور بیوی بچوں سمیت منتقل ہو گئے اور جو کمایا وہیں خرچ کیا پھر بھی مقامی دوستوںکے طعنے سنے کو ملتے کہ لوٹنے آگئے ، آخر ایک دن اپنے ایسے کرمفرماﺅں کوجتلانا پڑا کہ مکان کا کرایہ دیتے ہیں ۔ جو کچھ تنخواہ کراچی سے آتی ہے یہیں خرچ کرتے ہیں۔ بچوں کی اسکول کی فیس بھی یہیں جاتی ہے۔ اس دن کے بعد ان کے طعنوں سے گلو خاصی ہوئی۔کراچی کو ہم نے اس ہی لیئے اکوموڈیٹیو کہا ہے کہ یہاں باہر سے آنے والے ، مقامیوں کے مقابلے میں زیادہ طمطراق سے رہتے ہیں ۔ بیوی بچوں کی غیر موجودگی میں کچھ زیادہ ہی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔لڑنے مرنے پر ہر دم آ مادہ کیونکہ پردیسی ہونے کے ناطے آپس میں ایکا جو ہوتا ہے ۔کراچی میں باہر سے آنے والوں کا طریقہءواردات بھی خوب ہوتا ہے۔ آتے ہی خود ساختہ چوکیدار بن بیٹھتے ہیں ۔ ایک ڈنڈا لیا ایک سیٹی پکڑی اور شروع ہو گئے۔۔ ” جاگتے رہو “۔وہ تو بھلا ہو سابقہ فوجی بھائیوں کا، جنہوں نے سیکیوریٹی ©©کے ادارے جا بجا کھول لیئے اور ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ گارڈز کے بغیر کوئی آفس کوئی ادارہ، بشمول بنک محفوظ نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ کئی بڑی ڈکیتیوں میں نجی کمپنیوں کے گارڈز ملوث پائے گئے۔ کئی گھریلو خواتین کے قتل میں بھی ان کا ہاتھ پایا گیا اور کیوں نہ ہو ۔ اسلحہ ان کے پاس ٹرانسپورٹ ان کے پاس ! ۔ کہاوت ہے کہ چوروں کو چوکیدار بنادو تو اخلاقاً چوری سے تائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن چوکیدار ہی چوری پر کمر بستہ ہو جائیں تو ؟ ۔۔ یہ ہے سوچنے کی بات ۔ چلتے چلتے ایک لطیفہ۔۔ ایک صاحب یہ سن کر کہ کراچی میں روزگار کے بڑے مواقع ہیں ، کراچی آگئے۔ اتفاق سے کوئی کام نہ ملا تو گھومتے گھامتے ایمپریس مارکٹ پہنچ گئے۔وہاں کی گہما گہمی دیکھ رہے تھے کہ نظر جا ٹہری ایک ایسے شخص پر جو ایک طوطا لیئے کھڑا تھا۔ یہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے ، تھوڑی ہی دیر میں ایک گاہک آیا اور طوطے کی قیمت پوچھی۔ طوطے والے نے قیمت ۵۰۰ روپے بتلائی۔گاہک نے پوچھا کچھ بولتا بھی ہے۔ جواب ملا جی ہاں اور طوطے سے بولا کہو نبی جی چُوری بھیجو، طوطے نے فوراً یہ الفاظ دہرا دیئے۔ گاہک نے دام چکائے اور طوطا لے گیا۔ اس شخص کو بڑی حیرت ہوئی اور اس نے سوچا یہ کام ٹھیک رہےگا۔ دوسرے دن اس نے بھی کہیں سے ایک طوطا پکڑا اور آکر اس ہی جگہ کھڑا ہو گیا۔۔ کافی دیر بعد ایک گاہک آیا اور قیمت پوچھی۔ اسنے کہا ۵۰۰ روپیہ۔ گاہک نے پوچھا کیا کچھ بولتا ہے ۔ اس نے جواب دیا ہاں اور طوطے سے کہا بولو نبی جی چوُری بھیجو ۔ طوطا خاموش رہا اور گاہک کچھ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔اب اسے پریشانی لاحق ہوئی۔ اسی اثنا میں ایک خاتون آگئیں اور قیمت پوچھی گھبراہٹ دیدنی تھی لیکن کمال ہوشیاری سے فوراً بولا ’ ۱۰۰۰ روپیہ ‘۔ خاتون نے پوچھا اس میں کیا خاص بات ہے ۔ کیا بولتا ہے ؟ جواب دیا نہیں بولتا تو نہیں ہے۔ خاتون نے تعجب سے کہا پھر ہزار روپے کس بات کے ؟ اس نے اطمینان سے شہادت کی انگلی کنپٹی پہ ٹھوکتے ہوئے کہا ۔۔ ”جی یہ سوچتا ہے۔“۔