میرے عزیز ہم وطنو! یہ القابات تو ہم نے بار ہا سُنے، لیکن کیا کبھی ہم نے یہ بھی سوچا کہ یہ القابات کہنے والی شخصیات اپنے مرتبے میں کتنی معزز تھیں؟ کیا انہوں نے اپنے ”منصب اقتدار‘ کو وطن اور اسکے اہلیان کی فلاح و بہبود اور عزت و تکریم کےلئے استعمال کیا یاقومی وسائل کو صرف اپنی ذات اور خاندان کی مالی خوشحالی کا ذریعہ بنایا؟ ایوب خان، یحییٰ خان ، ضیاءالحق ، مشرف ، آصف علی زرداری ، نواز شریف اور ان کی کابینہ اور مختلف اداروں کے سربراہوں نے امانت اقتدار کی پاسداری کی یا نہیں؟ یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ ملک کے چیف ایگزٹیو پر کرپشن کی کارروائی سپریم کورٹ میں جاری ہے اور ہمارے سیاستدان حتیٰ کہ مختار کل سیاسی حکمران (حزب اقتدار اور حزب اختلاف) پارلیمنٹ میں کوئی بیان دیں یا قوم سے خطاب کریں، جلسہ عام میں کوئی وعدہ کریںیا ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں کوئی بھی دعویٰ کریں اور جب ان سے عدالت عالیہ پوچھے کہ آپ نے یہ کیوں کہا! تو محض یہ کہہ دیا جائے کہ وہ تو "سیاسی بیان" تھا، اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ہاں سیاست صرف اور صرف جھوٹ کا نام ہے۔ علم سیاسیات جمہوریت کو معاملات انسانی کا بہترین حل قرار دیتی ہے۔ہمارا دین اور قرآن پاک کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ عبادات کا تعلق اللہ اور انسان کے درمیان ہے جبکہ معاملات "حقوق العباد" انسانوں کے درمیان ہیں اور جو شخص حقوق العباد میں خیانت کرے اس کو بغیر حساب یوم حشر میں بھی معافی نہ ملے گی۔ حکومتی امور چلانے اور عوام سے کئے جانےوالے وعدو ں کی پاسداری نہ کرنے کی بنا پر ہم پکڑ میں ہیں۔ استغفراللہ ۔ ہمیں شاید اس بات کا احساس نہیںکہ ہم پر مصیبتیں قطار اندر قطار کیوں آ رہی ہیں؟ ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ دہشتگردی سے نکلتے ہیں تو جنگ کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ ملک میںمعاشی مسائل، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی قلت تو ہے ہی لیکن 2025ءتک پاکستان کو شدید خشک سالی اور پانی کی قلت کا نقارہ بھی بج چکا ہے۔ ہماری حکومتیں ، صاحب الرائے افراد اور میڈیا اس گھمبیر صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے کی عزت اُچھالنے میں ترجیحاً مصروف ہیں۔ من الحیث القوم ہم اپنی غلطیاں تسلیم کر کے معافی مانگنے کی بجائے "Every Sin has a justification" کی مصداق ہر گنا ہ اور غلطی کی Justificatinپر ڈٹ جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں تو عام آدمی اور نہ ہی حکمران اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے رویوں اور انکے بے بصیرت فیصلوں کی وجہ سے یہ نظریاتی مملکت ایسے پیچیدہ موڑ پر آن پہنچی ہے کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے دست نگر اور قرض کی معیشت پر زندہ ہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں میں ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں۔ ملک دو لخت ہوا۔ دو وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو سرعام گولی کا نشانہ بنے۔ صدر ضیاءالحق کا طیارہ ایک سازش کے نتیجے میں حادثے کا شکار ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود معزول اور جلا وطن ہوئے۔ صدر مشرف کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ذرا سوچئے تو جس ملک کی مختصر سی تاریخ میں صدر اور وزرائے اعظموں کا یہ حشر ہوا ہو وہاں کی طرز حکمرانی سے کس طرح مطمئن ہوا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف دیکھئے تو پاکستان ایک ایسا زرخیز ملک جسے قدرت نے چار موسم ، پہاڑ، صحرا اور زرخیز میدانی علاقوں سے نوازا ہو، جس کے دریاﺅں کا پانی میٹھا اور زراعت کےلئے معاون ہو، اور جس کا سمندر اور ساحلی پٹی جغرافیائی حکمت عملی کے اعتبار سے دنیا بھر کےلئے انتہائی کشش کا باعث ہو۔ عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت ہو، عوام جفا کش اور محنتی ہوں، جس کی فوج نہ صرف یہ کہ علاقائی اعتبار سے مضبوط بلکہ دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتی ہو اور اس میں وہ صلاحیت اور عزم ہو کہ وہ عالمی دہشت گردوں کے خوفناک ٹھکانوں اور چھپے دشمنوں کی تاریخی بیخ کنی کر سکے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج ہم پاکستانی دوسروں کے دست نگر ہیں اور ہمارا ہر عام شہری صحت عامہ، تعلیم اور سیکورٹی کی بدترین صورتحال میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات کی وجہ صرف ہماری سمت کا درست نہ ہونا ہے۔ کبھی ہم اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں، کبھی سب سے پہلے پاکستان ،کبھی جمہوریت، کبھی اشرافیہ اور کبھی کرپشن کے خاتمے کا۔ ہم کبھی امریکہ کے حاشیہ بردار بنتے ہیں تو کبھی چین کے ہمنوا اور کبھی روس کے مخالف تو کبھی ملت اسلامیہ کے ٹھیکےدار، کبھی اظہار رائے پر پابندی اور سینسر شپ کو اصلاح احوال کا راستہ قرار دیتے ہیں تو کبھی میڈیا کی مدر پدر آزادی کو، کبھی انصاف خریدنے کے دعویٰ دار ہوتے ہیں تو کبھی عدلیہ آزادی کی تحریک میں تمام جمہوری حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی ہم سلطنت مغلیہ کے شہزادوں کی طر ح حکومت کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ہم مسجد میں بیٹھ کر حکمرانی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تضادات ہم سب میں سرایت کر چکے ہیں۔
اپنا گھر درست کئے بغیر ہم کبھی بھی دوسروں کی مداخلت یا سازشوں سے نہیں بچ سکتے۔اگر ہم اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو بڑی بڑی سلطنتیں اور مضبوط ترین حکومتیں بھی طرز حکومت میں خرابی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ان حکومتوں میں سلطنت روما، سلطنت فارس، سلطنت مغلیہ، سلطنت عثمانیہ سبھی شامل ہیں۔ جن عوامل کی وجہ سے یہ حکومتیں اور سلطنتیں قصہ پارینہ بنیں ان میں بد انتظامی، اقتصادی بدحالی اور کمزور فوجی طاقت کا ہونا سب سے اہم ہے۔پاکستان عرصہ دراز سے بیڈ گورننس کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین بھی ہوش کے نا خن لیں اور تاریخ سے سبق حاصل کریں۔ اگر سیاسی حکمران گڈ گورننس کو منزل مقصود بنا لیں اور ملکی ترقی کے منصوبوں خاص طور پر اقتصادی راہداری اور گوادر کی ترقی پر ترجیحاً توجہ دیں تو ہماری معیشت کا پہیہ تیزی سے رواں دواں ہو گا۔ حکمرانوں کو قوم کی تربیت اور اسے تعلیم اور صحت کی حقیقی سہولتیں فراہم کرنے کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے پاکستان میں الحمدللہ قومی وسائل کی کمی نہیں صرف ہماری سمت اور نیتوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے مسائل کا حل پیچیدہ نہیں اصلاح احوال کیلئے ہمیں کسی سے مدد لینے کی بھی ضرورت نہیں بس اپنی "چارپائی کے نیچے ڈانگ (چھڑی) پھیرنی ہے۔"