اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے چار مقدمات سے دہشتگردی دفعات ختم کرنے اور مقدمہ سیشن کورٹ منتقل کرنے کے حوالے سے دائر چار درخواستیں مسترد کردیں جبکہ عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں19 دسمبر تک توسیع کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل بابر اعوان کو ہدایت کی ہے کہ وہ 19 دسمبر کو عمران خان کی مستقل ضمانت کے حوالے سے دلائل دیں اس کے بعد میں عدالت ضمانت کے حوالے سے فیصلہ کرےگی۔پیرکوانسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملوں، ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو پر تشدد سمیت چار مقدمات کی سماعت کی۔عمران خان چوتھی مرتبہ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے ۔عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے مقدمات سے انسداد دہشتگردی دفعات ختم کرنے کے حوالے سے دائر درخواست پر دلائل دیئے۔بابر اعوان کا دلائل میں کہنا تھا کہ ان مقدمات میںدہشت گردی کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتا اگر کوئی جرم ہوا بھی ہے تو دہشت گردی کا جرم نہیں ہے اس نکتہ کی سرکاری پراسیکیوٹر نے مخالفت کی اور ایف آئی آر کا متن پڑھ کر سنایا اس کے علاوہ عمران خان کی تقاریر پڑھ کر سنائیں۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے کارکنوں کو اشتعال دلایا اور وزیراعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کا کہا اس کے علاوہ پی ٹی وی پر حملے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی اور عمران خان کی گفتگو کا ریکارڈ بھی کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا جس پر بابر اعوان نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں بھی آڈیو ٹیپ دی جائے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے فون ٹیپ ہوئے عدالت میرا اعتراض لکھے سرکاری پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عمران خان ساڑھے تین سال مفرور رہے اور پھر آتے ہی عدالت پر اعتراض کر دیا۔بابر اعوان کا کہنا تھا کہ صرف تقاریر پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنایا جا سکتا کیا بنٹے برآمد ہونے کی سزا موت ہے، سرکاری پراسیکیوٹر چوہدری شفاقت کا کہنا تھا کہ ملزم عمران خان کو ضمانت بھی نہیں ملنی چاہیے ۔انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے مقدمے سے اے ٹی سی کی دفعات نکالنے اور اسے سیشن کورٹ منتقل کرنے کی عمران خان کی استدعا مسترد کردی۔عدالت نے چیرمین تحریک انصاف کی عبوری ضمانت میں 19 دسمبر تک توسیع کردی اور انہیں آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔