گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں…

وقت کا ادراک صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو ہے جو اس عمر میں بھی ہر شہر ہر ضلع میں بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کو شدت سے احساس ہے کہ اُن پر بھاری ذمہ داریاں ہیں اور اب اُنکے پاس وقت کم ہے۔ انہوں نے پہلی بار لاہور میں شام کے وقت عدالت لگائی۔ حقیقت ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے عملاً خدمات انجام دی ہیں اور وہ محض گفتار کے غازی نہیں ہیں بلکہ کردار کے غازی بھی ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے سفارشی کلچر کی مذمت کی ہے اور میرٹ کی بالادستی کی بات کی ہے لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں میرٹ کی تحقیر کی جاتی ہے میرٹ کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دئیے جاتے ہیں۔ اگر میرٹ کی بات کی جائے تو پاکستان کے 70 فیصد عہدیداروں کو گھر بھجوانا پڑے گا کیونکہ یہ سب سفارش، رشوت، اقربا پروری، سازش اور مکاری کے بل بوتے پر اہل لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر عیاری سے ان عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں جس دن میرٹ کا بول بالا ہو گیا۔ اس ملک کے عوام کے اصل دکھ تب دُور ہونگے۔ چیف جسٹس نے ناقص طبّی سہولتوں اور ڈاکٹروں کی غفلت لا پرواہی کی بھی بھر پور مذمت کی ہے ہر وقت ڈاکٹروں کی تنخواہیں الاؤنس اور دیگر مراعات بڑھانے پر زور رہتا ہے یہ شہباز کلچر ہے جسے شہباز شریف نے دن رات پروان چڑھایا ہے۔ شہباز شریف نے ڈاکٹر، پولیس، وکیل اور اپنے محضوص صحافیوں کو بہت بھرا ہے اس لئے چیف جسٹس کو چاہیے کہ جانے سے پہلے میرٹ کے حوالے سے کوئی ایسا کام کر جائیں کہ کوئی اقربا پروری یا سفارش رشوت، پی آر یا چالبازی اور عیاری سے میرٹ کا خون نہ کرے۔ چیف جسٹس نے بھی یہ کہا ہے کہ منشا بم کیس اگلے چیف جسٹس پر نہیں چھوڑ سکتا۔ منشا بم کیس ہو یا علیمہ خان کیس ہو آصف زرداری کیسز ہوں یا شریف برادران کیسز ہوں۔ کوشش کریں کہ ان کو بھی نمٹا کر جائیں ورنہ آپکے ریٹائر ہونے کے بعد سب دندناتے پھریں گے۔ انصاف سر پکڑ کر روئے گا اور یہ سب پھر اقتدار، دولت اور عیاشیوں پر لگ جائینگے۔ چیف جسٹس صاحب!! اس ملک میں غریبوں کی حالت واقعی خراب ہے کوئی غریب کا نہیں سوچتا۔ کسی حکمران نے کبھی غریبوں کیلئے کچھ نہیں کیا ایک آدمی غربت سے عاجز آکر چوری کر لے تو پولیس اتنی چھترول کرتی ہے کہ آدمی پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا لیکن کوئی اثرو سوخ والا آدمی ہو، سیاستدان حکمران ہو تو پولیس اندھی بہری ہو جاتی ہے۔ غریب آدمی چوری پر جیل میں سڑنے مرنے کو چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن یہاں ہم نے عجیب تماشہ دیکھا کہ شریف برادران پورا ملک لوٹ کر کھا گئے ملک کو قرضوں میں جکڑ دیا۔عدالتوں پر پیشی کیلئے آتے ہیں تو پروٹوکول کے ساتھ آتے ہیں۔ گاڑیوں کی قطاریں ہوتی ہیں، پورا جلوس لیکر آتے ہیں۔ پھول اس طرح نچھاور کرواتے ہیں جیسے سکندر اعظم ہوں۔ دنیا فتح کرکے آئے ہوں یا کشمیر جیت کر آئے ہوں یا انہوں نے ایٹم بم یاکوئی میزائل ایجاد کیا ہو، یا یہ اسرائیل امریکہ بھارت کو شکست فاش دے کر آئے ہوں۔ تھری پیس سوٹ عدالتوں اور جیلوں میں بھی پہنتے ہیں۔ انواع و اقسام کے کھانے جیلوں میں بلٹ پروف گاڑیوں میں پہنچائے جاتے ہیں۔ پوچھنا صرف یہ تھا کہ کوٹ لکھپت جیل یا دیگر جیلوں میں جو عام اور غریب مجرم ہوتا ہے، کیا اسے بھی یہ سب مراعات عنایات اور نوازشات عطا کی جاتی ہیں؟ کیا سب مجرموں کو اسی ٹھاٹ باٹ کے ساتھ رکھا جاتا ہے؟ کیا سب مجرموں کو تھری پیس سوٹ‘ چمچماتے بوٹ، پرفیومز کی اجازت ہوتی ہے؟ انصاف کی رو سے سب ملزموں اور مجرموں کیساتھ مساوی سلوک کا حکم دینا چاہئے۔ حکمران سدھریں یا نہ سدھریں لیکن چیف جسٹس صاحب تمام مجرموں کیساتھ جیلوں میں ایک جیسا برتائو ہونا چاہئے۔ آپ کو اس حوالے سے کوئی بڑا اور پائیدار قدم اٹھانا چاہئے۔ پاکستان میں بھی کبھی انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بات میں بڑا وزن ہے کہ جس کے پاس کل موٹر سائیکل تھی، آج لینڈ کروزر ہے۔ دبئی میں بڑے ٹاور ہیں تو چیف جسٹس پوچھنا چاہئے۔ کہ جن جیبوں میں کل تک ریزگاریاں تھیں اور جو ویگنوں ، بسوں کی سواریاں تھے۔ صرف دس بیس سالوں میں انکے آٹھ دس پلاٹ ، فارم ہائوس لگژری بنگلے کوٹھیاں پلازے، ٹاور، پٹرول پمپ کیسے بن گئے؟ انکے نوٹ ڈالروں میں سے کیسے بدل گئے انکے چار چار چھ چھ اکائونٹس کیسے بن گئے۔ دوبئی قطر سعودیہ برطانیہ امریکہ ترکی چین سوئٹزرلینڈ جرمنی اور بھارت میں انکی کروڑوں اربوں کی جائیدادیں کیسے بن گئیں لکھ پتی سے وہ ارب پتی کیسے بن گئے؟ یہ نسخہ کیمیا پوری قوم کو کیوں نہیں دیتے۔ غریبوں اور متوسط طبقے کے ذرائع آمدن کو تو ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑا جاتا ہے۔ ان کی حق حلال کی کمائیوں سے ان کی ہڈیوں کا گودا تک نکال لیا جاتا ہے، لیکن بھیڑیوں کو کوئی نہیں چھیڑتا۔اس ملک میں جب تک کرپشن پر سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ اس ملک سے یہ تمام بیماریاں برائیاں ختم نہیں ہونگی۔ چیف جسٹس صاحب دن گزر رہے ہیں۔ جانے سے پہلے میرٹ، کرپش اور اردو کے حوالے سے مستحکم ، پائیدار اور اٹل فیصلے کر جائیں یہ کام صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔ اس قوم پر احسان کر جائیں۔ یہ قوم آپ سے انصاف کی طالب ہے۔ ان کے مسیحا، رہبر اور غمخوار بن جائیں۔

ای پیپر دی نیشن