حکومت اپوزیشن اور بدلا بدلا پاکستان

آج پاکستان بدلا بدلا نظر آرہاہے۔حکومت اور اپوزیشن مفاہمت کیلئے تیار نہیں،حکومت اپوزیشن کو ہمیشہ مفاہمت کی دعوت دیتی رہی ہے مگر آج اسکے برعکس اپوزیشن حکومت کو مفاہمت اور مل کر چلنے کی پیشکش کر رہی ہے مگر حکومت اپنے احتساب کے ایجنڈے پر قائم اور سب سے حساب مانگ رہی ہے۔اس پر مشاہد حسین ایسے کڑاکے نکالنے کے قائل بھی احتساب کی حکومتی سوچ کو انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں، خورشید شاہ نے حکومت کو آمریت کا متبادل قرار دے دیا ہے۔ نیب اپنی تلوار میان میں ڈالنے پرتیار نہیں،اس نے شہباز شریف کو پکڑا اور زرداری کا پیچھا کیا جارہا ہے۔نیب کے تیور دیکھ کر کوئی راہ فرار اختیار کررہا ہے کوئی ضمانتیں کرارہا ہے عمران سمجھتے ہیں کہ پہلے دن سے حکومت گرانے کی سازشیں ہورہی ہیں مگر وہ اپنے کاز اور ایجنڈے پر کمٹڈ ہیں۔اس سے پاکستان بدلے گا۔سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے تاحیات رہبر نے ایک جلسے کے دوران خود کو نظریہ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا نواز شریف ایک نظریہ کا نام ہے۔ ایک حلقہ میاں نواز شریف کو نظریہ سے بھی آگے کی شخصیت مانتا ہے ۔ان پُر جوش حامی چرچل و منڈیلا کے پائے کا عالمی لیڈر باور کراتے ہیں ۔ مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب نے جب وہ مسلم لیگ نون حکومت کی وزیر تھیں، انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف ایک نشہ اور ایک جنون ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے کیلئے نظریہ کی سوچ نہ جانے کہاں سے اخذ کی ،تاہم اس سوچ کو تیزی سے مقبولیت ملی۔ میاں نواز شریف جہاندیدہ سیاستدان اور سردو گرم چشیدہ شخصیت ہیں۔ لیگی حلقوں کیلئے انکی باتیں نظریات فکر و فلسفہ کا درجہ پا جاتی ہیں۔ ملک میں ایک حلقہ کیلئے وہ آئیڈیل اور رول ماڈل ہیں۔ اس بلند سطح کے لیڈر سے قوم کو ایسی ہی توقع رکھنی چاہیے جس سے بجا طور پر رہنمائی حاصل کی جا سکے ۔انہیں کڑے حالات کا سامنا ہے۔ عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں، قید کی سزا سنائی جا چکی ہے، اس کیس میں فیصلہ معطل ہونے پر جیل سے باہر ہیں۔لیڈر ایسے ہی کڑے حالات کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں۔ قوم کا سر فخر سے یقیناً بلند ہوتا اگر میاں نواز شریف کو سیاسی معاملات میں جلاوطنی کی طرح جیل کاٹنی پڑتی۔ ان کو کرپشن کی جرم میں قید کاٹنا پڑ رہی ہے ،اس پر فخر نہیںشرمندگی اور اپنی اصلاح ہونی چاہیے۔اصلاح انکی لیڈرشپ کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرسکتی ہے۔قوم اپنے ہر لیڈر سے سچائی،ایمانداری اور دیانت کی توقع رکھتی ہے۔میاں نواز شریف کے کچھ حالیہ بیانات حیران کن اور وکھری ٹائپ کے محسوس ہوتے ہیں۔ احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ نیب کو میں نے نہیں مشرف نے بنایا، نیب کا قانون ہی غلط ہے تاہم نیب جس طرح ہے اسی طرح رہنا چاہیے ہم بھگت چکے ہیں باقی بھی بھگتیں۔ دنیا نے ہمارے دور حکومت میں معیشت کی تعریف کی۔ ہمارے 4 سال میں ڈالراتنا نہیں بڑھا جتنا اس حکومت کے چند ماہ میں بڑھ گیا مجھے نہیں پتہ کہ ڈالر کو نچلی سطح پر رکھنے کیلئے مصنوعی طریقہ کار کیا ہے۔ ہمارے دور میں ٹماٹر 20روپے کلو ٹماٹر تھا اور اب 200سے زیادہ ہے۔ مشرف نے جلاوطن کیا، خود مرضی سے نہیں گئے۔ ہمارا تو ذرائع آمدن کا ریکارڈ 1937 سے موجود ہے۔اس تین چار سطری گفتگو میں بھی کئی تضادات پائے جاتے ہیں جو ایسے لیڈر کے شایانِ نہیں جو خود نظریہ اور انکے جذباتی حامی انہیں قائد اعظم ثانی مانتے اور اس سے وہ حِظ اٹھاتے ہیں۔پی ٹی آئی حکومت بھی ڈالر کو قرضے تیس ہزارارب روپے پچاس ہزارارب روپے تک لیجاکرمصنوعی طریقہ کار استعمال کرسکتی ہے۔میاں صاحب کس دنیا میں رہتے ہیں، ٹماٹر آج بھی بیس روپے کلو ہے،کسی کو عام مارکیٹ بھیج کر منگوا لیں۔آمدن کا 1937ء سے ریکارڈ موجود ہے مگر محلات کی منی ٹریل نہیں ہے؟مشرف نے زبردستی جلاوطن کیا ؟سعد حریری معاہدہ کہاں سے آگیا؟نیب مشرف نے انتقام کیلئے بنایا، احتساب کمیشن مخالفین کو چاند کی سیر کرانے کیلئے بنایا گیا تھا؟ سیف الرحمٰن احتساب کمیشن کے چیئرمین تھے۔ یہ کتنا طاقت ور کمیشن تھا اس کا اندازہ آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کیخلاف قائم کیے گئے مقدمات اور ان میں سزاؤں کیلئے عدالتوں پر اثرانداز ہونے کے سے ہوتا ہے۔ نیب کے سربراہان کا تقرر یہی دونوں پارٹیاں مل کر کرتی رہی۔وہ چیئرمین ان پارٹیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔ آج کے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال بھی انہی دو جماعتوں کا انتخاب ہیں۔مگر اب وہ ان کیلئے اس لئے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں کیونکہ وہ کسی کے ساتھ کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں۔ فیصلے میرٹ پر کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کا یہ کہنا حیران کن ہے کہ نیب کو ایسے ہی رہنا چاہیے۔ یہ انکا نیب کی کارکردگی پر اعتماد اور اسے خراج تحسین نہیں بلکہ نیب جسکے قانون کو وہ غلط قرار دیتے ہیں اسکے ذریعے انکے مخالفین بھی اسی انجام سے دوچار ہوتے نظر آتے ہیں جن کیلئے احتساب کمیشن بنایا گیا تھا حالانکہ انکے بہت سے قریبی رشتہ دار اور ساتھی بھی نیب کی زد میں ہیں۔ ایک وژنری لیڈر کا قوم کی نبض پر ہاتھ ہوتا اور وہ سچائی اور دیانت میں دوسروں کیلئے رول ماڈل ہوتا ہے۔جس لیڈر میں یہ صفات نہ ہوں وہ کوئی بھی ہوعوام کو زیادہ دیردلفریب نعروں، دعووں اور ترغیبات سے اپنا گرویدہ بنائے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا بالآخر ایکسپوز ہوجاتا ہے۔اب بہر حال پاکستان بدل رہا ہے اور بدلا بدلا نظر بھی آتاہے،جو ادارے کبھی ڈکٹیشن پر چلتے تھے اب خود مختار ہیں،چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا کہنا ہے ۔’’حکمرانوں کو بتادیا جو کرپشن کریگا وہ بھرے گا ظل الہٰی کا دور ختم ہوگیا‘‘

ای پیپر دی نیشن