باتیں کرنے والے بندے کے لہجے میں بھی مہک ہو تو سونے پر سہاگہ۔ اب ہر جگہ عمران کے ویژن کی بات ہوتی ہے۔اس نے شجرکاری کا منصوبہ دیاا ور خیبر پختون خواہ سرسبز ہو گیا۔ لاہور میں پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی ہے۔ اس کی اہمیت ملاحظہ ہو کہ اس کاچیئرمین خود عمران خان کی چوائس ہے اور اسے بیسٹ چوائس کہا جاسکتا ہے۔یاسر گیلانی پی ایچ اے کے نئے چیئرمین ہیں۔ حکومت نئی ہے تو چیئر میں بھی نیا ہو گا۔ پچھلی حکومت میں ہر ادارے کاچیئر مین خود خادم اعلی تھاا ور جو بندہ کام کرنے پر مامور تھا، اسے وائس چیئر میں بنایا جاتا تھا۔ ہمارے ایک صحافی دوست اافتخار احمد اس منصب پر فائز رہے ۔ یاسر گیلانی نے پچھلے دور کے بارے جوکچھ بتایا، وہ ہوش و حواس اڑانے کے لئے کافی تھا، کوئی شعبہ ایسانہیں چھوڑا گیا جس میںکرپشن نہ کی گئی ہو۔ کرپشن کرنے والالہریں گننے پرلگا دیا جائے تو دیہاڑی لگا لیتا ہے۔ یہ تو پھر ایک حکومت تھی جو دس سال تک متواتر رہی۔ اورا س سے قبل یہ پچھلی صدی کے بیس سال بھی حکومت کرتی رہی، اسے حکومت کرنے کا تجربہ ہوا یا نہیں ہوا مگر مال بنانے کا تجربہ توا سقدر تھا کہ کیمبرج یاا ٓکسفورڈ کو انہیں کرپشن کی پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دیناچاہئے تھی۔
یاسر گیلانی کے ساتھ ان کی پی آر او بھی تھیں جن کا نام ہم نے نہیں پوچھا اور نہ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ بس معظم علی خان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ ان کی ایم فل کی کلاس فیلو تھیں۔ خدانہیںمزید ترقی دے اور وہ ہ پھولوں کے درمیان پھلیں پھولیں۔
میں نے ایک لمبی تقریر جھاڑ دی کہ میرے ذہن میں پھولوں اور پودوں کے چند ماڈل محفوظ ہیں۔ ایک تو ستر برس قبل ہوش کی آنکھیں کھولیں تو پتہ چلا کہ پتو کی کے نواح میں گہلن میں میرے خالو عبدالواحد نے تجارتی مقاصد کے لئے پہلی نرسری قائم کی۔ آج پتوکی کے ارد گرد نرسریاں ہی نرسریاں ہیں ،ہرموسم کے پودوںا ور ہر رنگ کے پھولوں کی ریڑھیاں سڑک کنارے یارلوگ لگائے بیٹھے ہیں۔شجر کاری کا ایک ماڈل میرے ذہن میں جنرل انصاری کے دنوں کا محفوظ ہے جب انہوںنے ایل ڈی اے کے چیئر مین کے طور پر نہر کنارے پھلدار پودے لگائے۔چالیس برس ہونے کوآئے ، ان کے لگائے گئے درخت امرودوں سے لدے نظر آتے ہیں۔ فالسہ اور جامن بھی نہر کنارے چھابڑیوں میں فروخت ہوتے ہیں، تازہ پھل لاہورکے اس قدر قریب دیکھ کر آنکھوں کے راستے پیٹ بھر جاتا ہے ،
پھر ایک ماڈل لاشاری صاحب کا تھا جب پی ایچ اے کو کاروبار بنا دیا گیا۔ دنیا بھر سے پودے اور پھول امپورٹ کئے گئے اور لاہور رنگوں کی بارش میں نہا گیا۔ سنا ہے لوٹ مار کی بسم اللہ ان دنوں ہی ہو گئی تھی جسے شہباز شریف کے دور میں سائنس بنا دیا گیا مگر درمیان میں پرویز الہی کا دورا ٓیا اور میرے علاقے قصور لاہور کے درمیان ایک چوڑی سڑک بنی۔ اس کے درمیان کوئی آٹھ فٹ کی خالی پٹی شجر کاری کے لیئے چھوڑی گئی جس میں کئی انکلیو بنے ہیں اور ان کے کتبوں پر لکھا ہے کہ یہ کوئی پھلدار پودے ہیں مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے پندرہ برس ہونے کو آئے،یہ پودے نہ پھلدار بن سکے نہ سایہ دار۔چڑیا تو دور کی بات ہے کوئی مکھی بھی ان پر منڈلاتی نظر نہیں آتی ۔ پتہ نہیں ان درختوں کو کس نے گڑھتی دی کہ بانجھ کے بانجھ ہی رہے۔ پھر شہباز شریف کادورا ٓیا، انڈر پاس اور اوور ہیڈ پل بنے اورہر طرف درخت اورپھول ہی پھول نظر آنے لگے، لاہوریئے تو جھوم جھوم اٹھے، مگر یاسر گیلانی بتاتے ہیں کہ لاہوریوںکو یہ پتہ چلے کہ ان کے شہر میں یہ بہار کس خرچ پر آئی تو ان کا دماغ ماﺅدف ہو جائے گا۔ ہر پوداا ور پھول امپورٹ کیا جا رہا تھا اور امپورٹ میں جو گھپلا ہو سکتا ہے، جی بھر کے کیا گیا۔میںنے یاسر گیلانی کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ میرے ذہن میں پھول لگانے کا ایک ماڈل ا ور بھی ہے اور یہ میں نے پورپ میں دیکھا ہے جہاں گھر چھوٹے ہیں مگر ان کی دیوراوںکے ساتھ گملے اور ٹوکریاں لٹکی ہیں اور ان میں موسم کے مطابق رنگ رنگ کے پھول کھلے نظرا ٓتے ہیں۔اگر کسی گھر میں آدھ مرلہ کے پارک کی جگہ بھی ہے تو ا س میں سلاد کے پودے کاشت کئے گئے ہیں۔یاسر گیلانی نے کہا کہ آپ خاطر جمع رکھیں کہ ہمیں وزیر اعظم نے امپورٹڈ مال سے منع کردیا ہے۔ ہم جو درخت لگائیں گے یا پھول اگائیں گے وہ اسی دھرتی کی کوکھ سے پیدا ہو گا ، ہماری اولین ترجیح یہ ہو گی کہ پھلدار درخت لگائیں اور دوسری ترجیح یہ ہو گی کہ سایہ یہ دار درخت لگائیں جن میں صبح سویرے چڑیاں چہکیں،کوئل کی کو ک گھروںمیں سنائی دے اور فاختائیں اپنے گھونسلے بنائیں۔ہم انسان کو فطرت کے قریب تر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ہمارے شہروںمیں زیادہ ترلوگ دیہات سے آتے ہیں جہاں کھلی فضا ، بلندو بالادرخت ، ہر طرف سبزہ اور ہرے بھرے کھیت مگر شہروں میں اینٹوں کی دیواریں ، تارکول کی سڑکیں اور چیختی چچلاتی ٹریفک۔ لوگ سر پکڑ کر ر ہ جاتے ہیں کہ کہاں آن پھنسے مگرہم انہیں امن کا ماحول فراہم کریں گے، وہی فطری ماحول جسے وہ دیہات میں چھوڑ کے آئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان ملک کے قدرتی نظاروںپر فریفتہ ہیں۔ وہ پہاڑوں، جھیلوں اور شوریدہ سر ندی نالوں کی سیر کرتے رہے،وہ دنیا کوبتاتے ہیں کہ پاکستان پانچ موسموں کا ملک ہے۔یہاں زرخیز زمینیں، ریگستان ، صحرا ، سر بفلک پہاڑ۔ بل کھاتے دریا۔ نہروں کا ایک جال اور پھر سمندر کا ساحل ۔ یہ سب چیزیں دنیا کے کسی ایک ملک کومیسر نہیں،پاکستان سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے ۔مگر ہمیں اس کا چہرہ نکھارنا ہو گا۔ کچھ محنت کرنا ہو گی۔ یاسر گیلانی اپنے حصے کی محنت کر رہے ہیں۔ اور لاہور کو پھر باغوں، پھولوں اور سر سبزپارکوں کا شہر بنانے کی لگن سے سرشار ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ لاہور کی رنگ روڈ پر بھی وہ پھول اگائیں گے مگر ان کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں چھوڑی گئی۔ سو طے پایا ہے کہ آئندہ جو رنگ روڈ بنے یا فلائی اوور بنے تو درختوں اور پھولوں کے لئے جگہ چھوڑی جائے گی۔ ان کا ایک اور فیصلہ بڑا انقلابی ہے۔ کہتے ہیں کہ اب کسی وی وی آئی پی حتی کہ میرے جیسے صحافی کے گھر بھی پودے یا پھول گفٹ کے طور پر نہیں بھیجے جائیں گے۔ کسی نے وزیر اعظم کے گھر ایک ٹرک بھجوادیا مگر وہاں سے واپس آ گیا، ایک پولیس افسر نے کہا کہ شادی ہے ۔ تین چار دن کے لئے ان کے گھر گل داﺅدی کے گملے پہنچا دیئے جائیں،۔ ہم نے صاف انکار کر دیا، میںنے کہا کہ آپ کااصولی فیصلہ ہے تو درست ہو گا مگر آپ اپنی نرسریوں سے پودے فروخت کریں کیونکہ بعض پودوں اور پھولوں کی اجارہ داری پی ایچ اے کے پاس ہے ، یہ نجی نرسریوں سے نہیں ملتے۔
لاہور کو عمران خاں نے ایک یاسر گیانی دیا ہے۔ ایسے ہی لوگ فیصل آباد، ملتان ا ور اسلام ا ٓباد کو ملے ہوںگے اور پشاور، سوات ا ور مردان مالا کنڈ کو بھی، بس چند برس میں ہمارا ملک گل وگلزار کی طرح مہکے گا۔ پھر بھی ہمیں ٹیولپ دیکھنے کے لئے ہالینڈ جانا پڑے گا۔ڈیفوڈلز دیکھنے کے لئے شیکسپیئر کے دیس لیک ڈسٹرکٹ کا رخ کرنا پڑے گا۔ میں دو بار وہاں جا چکا ہوں ۔ طبیعت پھر بھی سیر نہیںہو پائی ۔ اورپتہ نہیںکشمیر کب جا سکوں گا جہاں زعفران کے کھیتوں میں سونا لہلہاتا ہے۔ میرا دل جب کبھی مچلتا ہے تو دیہات کا رخ کرتا ہوں جہاں سرسوں کے پھول دل ونگاہ کوجنت نظیر بنا دیتے ہیں اور اپنے دیس میں جب کپاس کے سفید یا براﺅن پھول کھلتے ہیں تودل بے قابو ہو جاتاہے۔یہ ہمارے دیس کا سونا ہے۔ یاسر گیلانی سے گزراش کی تھی کہ کبھی لاہور نہر کے کنارے گنے، مکئی،چری،برسیم،لوسرن،جوی یا باجرے کے انکلیو بنایئے ، سارا شہر پاگل نہ ہو جائے تو پھر کہنا۔میرے ایک راوین دوست کا پنجابی کا شعر ہے:
کنک داسٹا
نیزہ بن کلیجے وجے
تاں کجھ سجھے