کوئٹہ(بیورورپورٹ+صباح نیوز+ نیٹ نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ڈیم بنانا ہمارے اور ہمارے بچوں کی زندگی کی بقاءکے لیے ناگزیر ہو گیا ہے، اداروں کے حوالے سے کسی کا رہنا یا نہ رہنا معنی نہیں رکھتا۔ اپنے گریبان میں جھاکیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم میں کتنی کوتاہیاں ہیں۔ اداروں کیلئے کوئی شخص معنی نہیں رکھتا۔ ایشوز ہائی لائٹ کرتے رہے ہیں، میں رہوں نہ رہوں یہ ادارہ برقرار ہے جبکہ میرے بعد آنے والے مجھ سے زیادہ بہتر ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا اہم حصہ ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان آپ کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کے حقوق اسی طرح ہیں جیسے کسی دوسرے صوبے کے کسی بھی شہری کے حقوق ہیں، ان حقوق کا نفاذ آپ کا آئینی حق ہے اور یہ سپریم کورٹ اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ بلوچستان کے حقوق کا تحفظ کریں گے، صوبے کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے۔ کیا وجوہات ہیں کہ آج 40 سال کے بعد ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے سات سال بعد پاکستان میں پانی نایاب ہو جائے گا، یہ لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ بلوچستان میں پانی کی سطح کس حد تک گر رہی ہے، یہاں پر کیا اقدامات اٹھائے، کوئی اقدامات نہیں اٹھائے کیا ان لوگوں کا کسی نے احتساب نہیں کرنا۔ پاکستان سے محبت اور پیار سب سے اہم ہے اور اگر ہم یہ کام کر لیں تو ہمارے لئے ترقی کی راہیں بالکل آسان ہیں اور پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرفہرست ہوگا۔ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ اس صوبہ میں چیف سیکرٹری پنجاب یا کراچی سے آتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آئی جی بلوچستان کا نہیں ہے کسی دوسرے صوبے سے آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتظامی معاملات ہیں ہم انہیں ہائی لائٹ کرتے رہے ہیں اور عدالت میں بھی میں نے بہت سی آبزرویشنز دی ہیں کہ خود مختاری ہونی چاہیے اور سیلف گورننس کا حقیقی کنسیپٹ بلوچستان میں بھی اسی طرح رائج ہونا چاہیے جس طرح دیگر صوبوں میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں رہوں نہ رہوں یہ ادارہ برقرار ہے، میرے بعد آنے والے بڑے جید لوگ ہیں، مجھ سے زیادہ بہتر ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز کی خالی آسامیوں پر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ سیدہ طاہرہ صفدر جتنی جلدی بار کی مشاورت سے نامزدگیاں کریں گی اور سفارشات بھجوائیں گی اتنی جلدی ہم اس کمی کو پورا کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچستان کی نمائندگی بھی ہو گی جبکہ اس میں دیگر صوبوں اور اسلام آباد کی اپنی بھی مناسب نمائندگی بھی ہو گی تاکہ کسی کو اس بارے میں عذر نہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری کی اپنی عمارت بنا لی ہے اور رجسٹری کا سیکرٹریٹ بلوچستان کے لوگوں پر ہی مشتمل ہو گا۔ ان کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار مجھے 13 دسمبر کو ان افراد کی لسٹ دے دیں جن کو اکاموڈیٹ کرنا ہے اور ایک ہفتے بعد مجھ سے نتائج لے لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے دورے کے بعد مجھے بلوچستان آکر ڈیم کی مہم کے حوالہ سے بڑا پیار اور بڑی محبت ملی ہے۔ میں کہتا ہوں ایک سال اپنے ملک سے محبت کر لیں اور اپنا پیٹ اس ملک کو دے دیں پھر دیکھیں ملک میں کتنی بہتری آئے گی اور آپ اپنے آنے والے بچوں کے لیے کتنا نایاب ورثہ چھوڑ کر جائیں گے۔ اپنی اصلاح کرنا تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے اور اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہمیں پتا چل سکتا ہے کہ ہم کن کن کوتاہیوں کا شکار ہیں اور ان کوتاہیوں کو تو دور کر سکتے ہیں۔ میں اس وقت سے گزر رہا ہوں جو ملک کو واپس کرنے کا وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے ملک سے محبت اور پیار کریں۔ کیا ہم نے اس ملک کی اس طرح سے قدر کی جس طرح کرنی چاہیے تھی۔ قبل ازیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کوئٹہ رجسٹری کی نئی عمارت کا افتتاح کر دیا۔ افتتاح سے قبل پولیس کے چاک و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ افتتاحی تقریب میںسپریم کورٹ کے ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر اور سینئر وکلاءبھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان کو عمارت سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کسی بھی معاشرے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ عمارتیں نہیں وہاں رہنے والی شخصیات پہچان ہوتی ہیں۔ انصاف کی بنیاد پر معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ سیدہ طاہرہ صفدر نے ججز اور عملہ کی طرف سے ڈیم فنڈ کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کو 24 لاکھ 55 ہزار 589 روپے کا چیک پیش کیا۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کوئٹہ کی زرغون روڈ کو ریڈ زون کے نام پر بند کیے جانے سے متعلق درخواست پر ریمارکس دیئے کہ دنیا بھر میں سکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند نہیں ہوتیں۔ پیر کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت میں سینئر وکیل سپریم کورٹ سید نذیر آغا کی جانب سے چیف جسٹس کو درخواست کی گئی کہ آپ نے ملک بھر میں سڑکیں کھلوائی ہیں، کوئٹہ شہر میں زرغون روڈ کو ریڈ زون کے نام پر بند کیا گیا ہے جس سے شہریوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو طلب کر لیا۔ڈومیسائل کی منسوخی سے متعلق ایک وکیل مجیب ہاشمی اور دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل موجود ہیں؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل ر¶ف عطاءنے کہا کہ بلوچستان سے ہیں، باقی تینوں صوبوں سے نہیں آئے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ صرف بلوچستان کا مسئلہ نہیں، ہمیں ملک بھر کے قوانین دیکھنا ہونگے۔ بہتر ہے اس معاملے کو اسلام آباد میں دیکھیں تاکہ سب وہاں موجود ہوں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور بلوچستان بار کونسل نے ظہرانہ دیا۔ تقریب میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس مظہر میاں خیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی سمیت وکلاءکی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
چیف جسٹس