اسلام آباد (بی بی سی) پاکستان میں چار برسوں میں رواں سال سب سے زیادہ جبری گمشدگیوں کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ یہ انکشاف لاپتہ افراد کی گمشدگیوں کا پتہ لگانے کے لیے قائم انکوائری کمشن کے اعداد و شمار سے سامنے آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2015 میں 649 شکایات وصول ہوئیں جبکہ اسی طرح 2016 میں 728، 2017 میں 868 لیکن رواں سال صرف 10 ماہ میں 899 افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔ اس فہرست میں نومبر اور دسمبر کی شکایات شامل نہیں ہیں۔کمشن کا دعویٰ ہے کہ 2018 میں 557 شکایات نمٹائی گئیں۔لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی سالانہ رپورٹس میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کی شکایات کرتی آئی ہیں لیکن یہ معاملہ پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ اور قومی اسمبلی میں زیر بحث رہا ہے۔یاد رہے کہ سینٹ کی انسانی حقوق کے بارے میں قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ جسٹس کمال منصور اور جسٹس نور محمد میسکن زئی کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے رپورٹ فراہم کی جائے۔ان رپورٹس میں پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے بارے میں سفارشات پیش کی گئیں ہیں جنہیں کبھی بھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا لہذا سیکرٹری داخلہ ان سفارشات پر عملدرآمد کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کرے۔سنیٹر مصطفیٰ کھوکھر کی زیر صدارت کمیٹی نے وزارت انسانی حقوق کو ہدایت کی تھی تمام شراکت داروں کی مشاورت سے ایک بل تیار کرے جس میں جبری گمشدگیوں کو جرم اور قابل سزا قرار دیا جائے۔کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے پاکستان پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 365 میں ترمیم کی ضرورت ہے۔انکوائری کمشن کے چیئرمین نے اس کمیٹی کے روبرو اپنا مؤقف دہرایا اور کہا کہ متعدد افراد جن کے بارے میں گمشدگی کی شکایات کی گئیں ہیں وہ ملک سے فرار ہوچکے ہیں یا بیرون ملک یا کسی دوسرے شہر میں رہائش اختیار کر چکے ہیں جس سے ان کے رشتے دار باخبر نہیں۔