پنجاب حکومت میں مشیر کے منصب پر فائز ہونے والا چودھری اکرم دوست ہے اور دوست دار آدمی ہے۔ وہ یہیں ہوتا تھا۔ اس سے گپ شپ لگتی تھی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ بھی آتا جاتا تھا۔ مشیر بن کے بھی وہ چودھری اکرم ہی رہا ہے۔ وہ اتوار بازاروں کے دورے اکثر کرتا ہے۔ اس طرح چیزوں کے سستا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ حکومت کا کوئی مشیر وزیر تو ہے جو مسلسل کام کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ اس سے گزارش ہے کہ وہ کبھی وحدت کالونی کے اتوار بازار بھی آئے۔
شاید وہ واحد مشیر وزیر ہے جو ایک عام آدمی کی طرح نظر آتا ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے شاہد رشید کے ساتھ اس کا ملنا جلنا زیادہ ہے۔ وہ باقاعدگی سے نوائے وقت میں کالم لکھتا ہے۔وہ اچھے مفصل کالم لکھتا ہے۔ مگر ان کالموں کو سرکاری کالم نہیں کہا جا سکتا ہے۔ سرکار کی باتیں عوام تک اور عوام کے مسائل سرکار تک اس حوالے سے پہنچتی ہیں۔ یہ ایک انوکھی تخلیقی کارروائی ہے جو عوام اور حکام دونوں کے لئے مفید اور دلچسپ ہے۔ بالعموم لوگ جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو سیاستدان بن جاتے ہیں جب اقتدار کا زمانہ ہو تو لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر عمران نذیر اپوزیشن میں ہو اور جب اسے کوئی پوزیشن ملے تو وہ ایک جیسا نظر آتا ہے۔ عمران نذیر اور عمران خان میں کیا فرق ہے۔ ابھی یہ سوچنا آپ کا کام ہے۔ عمران نذیر کہتا ہے کہ پاکستانی معیشت عمرانی حکومت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
مولانا طارق جمیل نے بھی آبادی کے بڑھنے کو ایٹم بم قرار دیا ہے۔ پاکستان میں تباہی اسی ایٹم بم کے چلنے سے آ رہی ہے۔ آبادی پر کنٹرول کے لئے بھی شرعی اور غیر شرعی کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی تقریبات میں مولانا طارق جمیل کو دعوت دینا حیران کُن ہے مگر ضروری ہے۔ آبادی کے بم کو اسی طرح ناکارہ بنایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭
معروف شاعرہ ناز بٹ کا خوبصورت شعری مجموعہ وارفتگی شائع ہو گیا ہے۔ شاعری کے ساتھ وابستگی سے وارفتگی تک ایک زبردست سفر ناز بٹ نے بڑے سلیقے سے انجام دیا ہے۔ وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس کی تقریب رونمائی و پذیرائی -16 دسمبر کو ہونے والی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس تقریب میں گورنر پنجاب چودھری سرور تشریف لائیں۔ آج ان سے ملاقات ہوئی اور دل خوش ہو گیا۔ اس حوالے سے مشہود شورش کی دوستانہ مہربانی بہت کام آتی ہے۔ چودھری صاحب سے پرانا تعلق ہے۔ اب سے تقریباً چالیس برس پہلے انگلستان کے شہر گلاسگو میں ملاقات ہوئی۔ وہ انگریزوں کے شہر گلاسگو میں کئی بار الیکشن جیتے۔ ہر بار پہلے سے زیادہ شاندار کامیابی حاصل کی۔ اب ان کے بیٹے نے والد صاحب سے بھی زیادہ ووٹوں سے مخالف کو شکست دی ہے۔
گلاسگو سے سیاست کا آغاز کرنے والے چودھری سرور پاکستان کو بھی اپنی طرز سیاست سے سرشار کریں گے۔ انہوں نے نواز شریف کے گورنر کی حیثیت سے استعفیٰ دیا۔ اب عمران خان کے گورنر کی حیثیت سے اُن کا کردار بے مثال ہو گا۔ وہ دوسرے گورنروں سے مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ گورنر ہائوس کی دیواریں گرانے کے منصوبے میں عمران خان کے علاوہ خود چودھری صاحب کا خیال بھی شامل ہو گا۔ اس طرح لوگوں کی کشادگی اور وسعتوں کی خوبصورتی دیکھ کر لطف آئے گا۔ مگر ہم عدالت عالیہ کے حکم پر خاموش ہیں۔ کسی اعلیٰ رہائش گاہ کا منظر نامہ وہاں رہنے والے کے ذوق و شوق کی گواہی بنتا ہے۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ لوگ کہتے رہتے ہیں کہ گورنر یہ نہیں کر سکتا۔ گورنر وہ نہیں کر سکتا۔ مگر میں نے خلوص دل سے محسوس کیا ہے کہ گورنر بہت کچھ اچھا کر سکتا ہے اور میں کر رہا ہوں۔
وہ شاعرہ ناز بٹ کی تقریب پذیرائی میں آئیں گے۔ بہت اچھا لگے گا۔ ناز بٹ کے کچھ اشعار آپ کو سنواتے ہیں:
چمن سا دشت تاحد نظر کتنا حسیں ہے
تو میرا ہمقدم ہے تو سفر کتنا حسیں ہے
وہ مرے سامنے بیٹھا ہوا ہے میرا ہو کر
دعائے نیم شب کا یہ اثر کتنا حسیں ہے
زہے قسمت کہ سایہ دار بھی ہے باثمر بھی
مرے سر پر محبت کا شجر کتنا حسیں ہے
نہیں ہے ناز کم جنت سے میرا آشیانہ
محبت سے مزین میرا گھر کتنا حسیں ہے
٭٭٭٭
صدام ساگر ایک جنونی نوجوان ہے۔ وہ شعر و ادب سے انتہا پسندی کی حد تک وابستہ ہے۔ وہاں سے ایک نمائندہ ادیب شاعر اور ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر سعید اقبال سعدی کی مکمل سرپرستی اسے حاصل ہے۔ رسالے کی مجلس ادارت سعید آسی ، ڈاکٹر صغرا صدف اور اعتبار ساجد اور کئی دوسرے لوگ شامل ہیں۔ وہ گوجرانوالہ سے باقاعدگی کے ساتھ ’’نوائے ادب انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرتا ہے جس میں گوجرانوالہ کے علاوہ لاہور کے اہل قلم دوست بھی شامل ہوتے ہیں۔
تازہ شمارہ سعید آسی نمبر ہے۔ جس میں معروف ادیبوں شاعروں کے تاثرات شامل ہیں۔ کئی دوستوں نے بہت عمدہ تحریریں لکھی ہیں۔ سعید آسی ایک بلند پایہ صحافی اور کالم نگار کے علاوہ ایک بڑے شاعر اور ادیب ہیں۔ انہوں نے ایک عمر لکھنے پڑھنے میں گزار دی ہے۔ سعید آسی کے کچھ اشعار دیکھئے۔
بادل برسے ہونگے لیکن میں اتنا ہی پیاسا ہوں
کب سے دامن پھیلائے میں تیرے در پہ بیٹھا ہوں
میرا گر احساس نہیں تو منزل ہی کی لاج رہے
تیری خاطر میں ا س گھر تک کتنی دور سے پہنچا ہوں
بیٹھے بیٹھے تیرا ملنا اتنا تو آسان نہ تھا
کسی سہانے خواب سے ڈر کر آدھی رات کو جاگا ہوں
اور نہیں تو میرے بہتے اشکوں کا ہی پاس کرو
کیا یہ کم ہے تیرے سامنے پہلی بار میں رویا ہوں
٭٭٭٭٭