رائو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے رکے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
یقین ہے کہ مرزا غالب نے جب کبھی مشاعرے میںغزل کا یہ مقبول شعر پڑھاہو گا تو واہ،واہ اور مقرر، مقررکی صدائیں ضرور بلندہوئی ہوں گی ۔اگر کسی باذوق قاری کی اس شعر پر نظر پڑی ہو گی تو آفرین کہا ہو گا ، مگرشاعری میں جو بات ،بات کا حسن بڑھاتی ہے وہی عملی زندگی کی سب سے خامی ہے ، خاک نشیں تو آب وگل،لب ورخسار،آتش چنار،چشم آہو،گیسوئے دراز ،فضا میں اڑنے والے تخت،نیلے آسمان اورکھل جا سم سم کے قصے کہانیوں سے ہی اپنا اور دوسروں کا دل بہلانا چاہتا ہے ،مگر کیا، کیا جائے کہ سیاسی اور معاشی سرکس جی کو بہلانے نہیں دیتی ہے ۔چند دن ہوئے کہ روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں سہم گیا ،ہر روز اس کی قدر میں تنزلی کا سلسہ جاری ہے ،مشیر تجارت کا ایک بیان چھپا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے قدم سے اگرچہ تجارتی خسارہ میں کمی آئی ہے مگر توقع سے بہت کم ہے ،اس کا مطلب یہی ہے کہ درآمدات میں کمی کے لئے ’’منی بجٹ‘‘ لا کر جو رکاوٹ ڈالی گئی تھی اس کے نتائج توقع سے کم رہے ،اس طرح برآمدات میں گروتھ ضرو رہوئی مگر وہ خسارہ کے گیپ کو مناسب حد تک پورا نہیں کر پا رہی ہیں،آئی ایم ایف کے ساتھ قرضہ پروگرام کے لئے بھی روپے کی قدر میں قابل لحاظ کمی کے مطالبہ کا ذکر ہوا تھا،ان تین حقیقتوں کوجاننے کے بعد کسی کو بھی کیااور ثبوت کی ضرورت ہے کہ ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کیوں اپنی قدر کو کھو رہا ہے؟اس پر اب سیاست تو ہوگی،روپے کی قدر کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی اس کی قدر کم ہوئی اس کے بعد سابق پوزیشن کبھی نہیں مل سکی،2007ء میں60روپے کا ایک ڈالر تھا اور آج یہ 130سے 140 کے درمیان قلابازیاں لے رہا ہے ، جب حکومتی زعماء یہ کہتے رہے ہوں کہ ڈالر کی قیمت کو ماضی میںمصنوعی طریقے سے سنبھالا دیا جاتا رہا اور اس پر بہت لاگت آئی توحالیہ کمی کوجوسوچا سمجھا فیصلہ تھا ، دلیری سے ’’اون‘‘ کرنا چاہیے تھا ، اس پر تضاد بیانی نے ہی یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ کہ اگر ہم نے مصنوعی سہارا دیا تھا تو آپ بھی دے لیتے ، روپے کی قدر میں کمی کے اثرات کیا ہوں گے ،یہ واضح ہیں ،جس طرح کے حالات ہیں ان میں حکومت اب کوئی بڑا ٹیکسیشن کا قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ،اس سے قدرتی طور پر درآمدات میں کمی آنا شروع ہو گی ،کیاا س سے برامدات میں اضافہ ہو گا ،یہ سوالیہ نشان ہے ،اس حوالے سے کی جانے والی ایک سٹڈی میں سامنے آیا تھا کہ ماضی میں روپے کی قدر کم کرنے سے برامدات کی گروتھ میں کوئی مثبت تبدیلی رونماء نہیں ہوئی،اور برآمدات کو حجم نہیں بڑھا،اس لئے کوئی بڑی توقع نہ ہی کی جائے،برامدات میں اور بہت سی دوسری رکاوٹیں بھی ہیں،ملک کے لوگوں پر جو سب سے بڑاا اثر رونماء ہو گا وہ کھانے کے تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کا ہے ،پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمت میں کمی ہوئی،مگر روپیہ گرنے سے اس کے ثمرات عوام کے لئے محدود ہوں گے ،ریونیو کا 4 ماہ میں 100ارب روپے کا شارٹ فال بھی اس کمی کا فائدہ منتقل کرنے سے روکے گا،اس وقت پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی شرحیں 17فی صد سے گھٹا کر قیمت کو کنٹرول کیا گیا ہے مگر یہ سلسلہ مذید نہیں چلایا جا سکے گا ،آیندہ چند ہفتوں میں خوردنی تیل اور گھی کی قیمت میں اضافہ شروع ہو گا ،اور جو ،جو چیز درآمد پر انحصار سے تیا رہوتی ہے،اس کی لاگت بڑھے گی اورافراط زر پر دبائو آنا لازمی ہے ،اگر سب منظر نامے کو بغور دیکھا جائے تو یہ کہنے میں زرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ ’’ویلن‘‘ کی انٹری ہو ا چاہتی ہے،یعنی آئی ایم ایف،ملک کے اندر آئی ایم ایف کو ولن ہی کی طرح پینٹ کرنے کی روائت ہے،خزانہ اپنا خالی ہوتا ہے اور ویلن بیچارا پیسے دے کر ہر طرف سے گالیاں ہی کھاتا ہے ، سوچیں کہ کوئی کسی مخصوص دکان دار سے ادھار پر سودا لیتا ہو،ادھار کی رقم بھی بڑھ رہی ہو،مقروض کے دیگر دکانداروں کے ساتھ بھی اسی قسم کے کھاتے چل رہے ہوں، اور وہ ’’روپڑے‘‘سے انکار کر چکے ہوں تو وہ مخصوص دکاندار مذید قرض کے تقاضا پر ضرور پوچھے گا کہ میرے اور دوسروں کے پیسے واپس کیسے کرو گے ؟بس جب ہم آئی ایم ایف سے قرضہ مانگتے ہیں اور وہ یہ پوچھتاہے کہ پرانے اور نئے پیسوں کی واپسی کیسے ہو گی تو پھر ہم بتاتے ہیں کہ آخراجات کم کریں گے، نئے ٹیکس لگائیں گے ،سبسڈیز ختم کریں گے ،بجلی گیس کے نرخ بڑھائیں گے ،ٹیکس جمع کرنے والی مشنری کو موثر اور کرپشن سے پاک کریں گے ،اس طرح ریونیو میں اضافہ ہو گا ، اور قرضہ واپس ہو گا ، اس طرح کے اقدامات کر بھی چکے ہیں،سیاست کے تقاضے کچھ بھی کہیں آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ناگزیر ہے ،پاک امریکہ تعلقات میں اگر بہتری آجاتی ہے تو آئندہ چند ہفتوں میںپروگرام ہو سکتا ہے ،اس لئے بہتر یہی ہے کہ پائوں رکاب اور لگام ہاتھ میں ہونے کی ہی بات کی جائے ،آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہی ملک کو وہ ساکھ مل سکتی ہے جس پر اس ادارے کے ممبران اور دوسرے کثیر القومی ادارے اور تنظیمیں اعتبار کرتی ہیں،دنیا میں کہیں سے بھی سرمایہ کار بلا لیںوہ آنے سے قبل آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی روپورٹس کو پڑھ کر آتا ہے ،آئی ایم ایف کے ماضی کے پروگرامز اگر نتائج نہیں دے سکے تو مجوزہ پرگرام کو قابل عمل بنایا جائے اور ایسے اہداف نہ لئے جائیں جو کل کو پورا کرنا ممکن نہ ہوں،اسی میں سب کی بھلائی ہے ، اس بار بھی میمورنڈم میں لکھی’’ کڑی شرائط‘‘ پر ویلن کو خوب گالیاں دلوا لیں مگر کچھ کر ایسا کر دیکھائیں کہ معیشت پائوں پر کھڑی ہو اور یہ جو ہر چند برس کے بعد اس پر لرزا طاری ہو جاتا ہے اس کی روک تھام ہو جائے،قوم سلام کرئے گی۔ ادھریوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن سے ایک اچھی خبر آئی ہے جہاں سکرٹری صنعت و پیداوار نے وزارت کے قابل افسر مشتاق احمد کو یو ایس سی کا قائم مقام ایم ڈی مقرر کیا ہے ،اس سے ادارے میں بے چینی دور ہو گی اور کارپوریشن اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا مشن پورا کر سکے گی،کارپوریشن کے بورڈ کے چیرمین اور نئے این ڈی کا فرض ہے کہ وہ ادارے میں موجود انکوئریز کا ریکارڈ منگو ا لیں، اور ان کو پایہ تکمیل کو پہنچائیں،اگر صرف یہی ایک کام کر لیا جائے تو ادارہ شفاف بن سکتا ہے ،اس امر کی بھی تحقیقات کی بھی ضرورت ہے کہ بورڈ چئیرمین کے خلاف کس کی ایما پر میڈیا ٹرائل کیا گیا تھا۔