یک طرفہ محبت

یک طرفہ محبت اوربھیک میں کچھ فرق نہیں ،ہے بھی تو کم از کم مجھے نظر نہیں آتا ۔ پاکستانی ڈراموں میں حلالہ اور زنا محرم سے تعلق ) انسسٹ )کے بعد جو سب سے زیادہ چیز دکھائی جاتی ہے وہ ہے یک طرفہ محبت ۔ اور زیادہ تر یہ ذمہ داری صنف ِ نازک کے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے شائد یہی سوچ کر کہ وہ اعصابی طور پر مردوں سے کہیں ذیادہ مضبوط ہو تی ہیں ۔ ہر دوسرے پاکستانی ڈرامے میں لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے جو رج کے حسین ہے اور معصوم بھی ، ظرف بھی بڑا اور دل بھی کشادہ ۔ دوسری طرف اُسی لڑکے کو کوئی اور لڑکی پسند کرتی ہے جس کے ضرورت سے ذیادہ تیکھے نین نقش کے ساتھ ساتھ مزاج بھی تیکھا مگر وہ لڑکی ،اس لڑکے کو جو کسی اور کو پسند کرتا ہے کے پیچھے پاگل ہے اپنی تمام تر خوداعتمادی کے باوجود وہ اس لڑکے کے پیچھے یہ جانتے ہو ئے بھی ماری ماری پھرتی ہے ۔ کسی کسی ڈرامے میں تو مائیں بھی لڑکیوں کی اس بے غیرتی میں بھر پور ساتھ دیتی دکھائی جاتی ہیں، جیسے آج کل مائیں بچیوں کو سسرال میں نہ بسنے کے سارے طریقے سمجھا کر بھیجتی ہیں ، ان کی ہدایات کی روشنی میں مجال ہے کسی لڑکی کا گھر بس جائے ، جن کا بچ جا تا ہے وہ لڑکے کا صبر ہو تا ہے۔ اور کچھ ڈراموں میں ایک لڑکی اور دو لڑکے اسی طرح کی آگے پیچھے والی دوڑ میں شامل نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کے ڈراموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا ایشو محبت ، محبت میں ناکامی ، محبت میں کامیابی اور پھر نظر کا لگ جانا ، بلکہ کئی ڈراموں میں تو بات کالے جادو تک جا پہنچتی ہے ۔جو پسند ہے اسے حاصل کرنے کے لئے کالا جادو بھی کیا جاتا ہے ۔ محبت تو دو دلوں کے درمیان بہنے والا ایک میٹھا سا دریا ہے جس میں سکون ہے ، احساس ہے ، بے غر ضی ہے ، آپسی احترام ہے ، اپنے سے ذیادہ دوسرے کی پروا کرنا اور سب سے بڑھ کر ذہنی مطابقت ہے ۔ ایک کی ہنسی دوسرے پر گرے تو قہقہ بن جائے ،ایک کا آنسو نکلے تو دوسرے کی بھی آنکھ بھر آئے ۔ ایک ہی منظر کو دونوں ایک ہی طرح دیکھیں ، ایک ہی لطیفے پر اکھٹے ہنس سکیں ایک ہی بات پر رو سکیں ۔ کتاب ، موسیقی اور نظارے ۔محبت ذلت نہیں خود توقیری کا نام ہے ۔ یک طرفہ محبت کرنے والے خود کی عزت نہیں کرتے اس لئے جس سے محبت کا دعوی کرتے ہیں وہ بھی پائوں تلے روند دیتا ہے ۔ محبت ، سب سے پہلی اپنی عزت بھی ہے ۔ جس قوم کو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ سجھایا گیا اس قوم کو خود کو عزت دو کا نعرہ سکھایا ہوتا تو آج انہیں ووٹ کو عزت دینا بھی آچکا ہو تا ۔سیاست کہاں سے آگئی ۔۔سیاست بھی اسی یک طرف یا دو طرفہ محبت کا نام ہے ۔جیسے low self esteem)) بے توقیرے لوگ یک طرفہ محبت کرتے رہتے ہیں اسی طرح ذلتوں میں گھرے لوگ ، ان لیڈروں کی محبت میں گرفتار رہتے ہیں جو نہ ان کی محبت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کی محبتوں کے قابل ہو تے ہیں ۔اندھی ،محبت نہیں ہو تی انسان ہو تے ہیں ۔کسی کو یہ احساس دلائے بغیر کہ ہم یا ہماری محبت کوئی گری پڑی چیز نہیں جسے تم نے ٹھوکروں میں رکھ چھوڑا ہے آپ اس سنگدل پتھر سے محبت کئے جائو تو یہ آپ کے ساتھ ساتھ لفظ محبت کی بھی تذلیل ہے ۔ دنیا میں ہر رشتہ باہمی لین دین کی بنیاد پر باعزت طریقے سے کھڑا ہو سکتا ہے ۔ اگر آپ کسی کے لئے کچھ کرتے ہیں اور بدلے میں اس کے پاس آپ کو دینے کو کچھ نہیں سچ بھی نہیں، خلوص بھی نہیں اور وہ بس آپ کو ٹرخا رہا ہے یا اس شوق میں مبتلا ہے کہ اس کے پیچھے چاہنے والوں کا ہجوم لگا رہے تو اسکا کیا جا تا ہے۔ہماری قوم سالوں سے یک طرفہ محبت میں مبتلا ہے ۔۔ جس سے محبت کرتے ہیں اسے ساتویں آسمان پر بٹھا دیتے ہیں ۔ وہ آسمانوں پر پہنچ کر خود کو خدا نہ سمجھے تو کیا سمجھے،پھر وہاں پہنچتے ہی وہ خود کو کسی کا جواب دہ نہیں سمجھتے ۔۔ وہ لیڈر ہیں خدا نما ۔ یا بالکل ہی خدا بن بیٹھتے ہیں ۔۔وہ کہتے ہیں کہ ہم جھوٹ بھی کہیں تو اسے سچ مانو ۔ ان کے آگے کیا جج ، کیا پولیس ، کیا افسر کیا صحافی سب سر بسجود ہیں ۔وہ ٹھینگا دکھا جاتے ہیں محبت کرنے والے اس ٹھینگے کو پوجنے لگتے ہیں ۔ ان قبروں کی پرستش شروع ہو جاتی ہے جہاں وہ ان کا خون چوسنے کے بعد مر کر دفن ہو تے ہیں ۔یک طرفہ محبت کا صدیوں سے کھیلا جانے والا یہ ناجائز کھیل کب ختم ہو گا ۔میں شرطیہ کہتی ہوں جس دن ختم ہو گا اسی دن انقلاب آئے گا ۔کیا کوئی سیاسی، مذہبی یا سماجی ٹھیکدار اس یکطرفہ محبت پر حرام کا فتوی لگائے گا ؟اس غیر فطری اختلاط سے جس بھی" عفریت "کا جنم یہ سب علتیں ، یہ سب مصیبتیں یہ سب نخوستیں اسی غیر فطری رحجان کی وجہ سے جنم لے رہی ہیں‘معاشرہ لتھڑ چکا ہے ۔خود کی قدر کر نے والے کبھی بھی ایسی بے معنی اور ذلت آمیز محبت کا دم نہیں بھر سکتے ۔ محبت تو مان دیتی ہے۔ کاش ان ڈراموں میں لڑکوں ،لڑکیوں کو محبت کے نام پر خود کی تذلیل نہ سکھائے جائے تو پاکستانی معاشرے میں بھی "خود توقیری "کی جڑیں پھیلنے لگیں، لوگوں کی عزت نفس بحال ہو اور جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے یا تذلیل کرنے والوں کی محبت کا دم بھرنے کی بجائے ان کا منہ نوچنا۔ تو ووٹ کی بھی عزت بحال ہو جائے گی ، مگر جناب ِ عالی!! اس سے پہلے ووٹر کو اپنی عزت کرنا سکھانا ہوگا ، اسے اپنے آپ سے محبت کرنا سکھانا ہو گا کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے وہ بھی اس سے محبت کر رہا ہے یا فقط خانہ پری یا استعمال ہی کر رہا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن