لاہور(رفیق سلطان) آئی جی پنجاب پولیس شعیب دستگیر کو اپنی تعیناتی کے پہلے روز سے ہی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت میں آنے سے قبل کیے گئے وعدوں میں ایک وعدہ پنجاب پولیس میں تبدیلی تھا جس میں سیاسی دباؤسے آزاد، غریب اور امیر کے ساتھ ایک سا سلوک فوری انصاف جیسے دعوے اور وعدے کیے گئے تھے، اور اب تک ان کی تکمیل کے لیے 4آئی جیزتبدیل کیے گئے ہیں، کیا ہٹائے جانے والے افسر انتخابی وعدوں کو انجام نہ پہنچا سکے یا ماضی کی حکومتوں کی بنائی گئی پالیسیوں پر عمل پیرا تھے یا ایسے کئی سوالات عوام کے ذہن میں ہیںکیونکہ پولیس اور لاء اینڈ آرڈر جوں کا توں ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں پولیس کارکردگی بدلنے کے لیے پولیس کی وردی بدل دی گئی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اس کے بعد اب جب بھی تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو آئی جی تبدیل ہو جاتا ہے مگر پولیس اسی ڈگر پر رواں دواں رہتی ہے۔ اب نئے آئی جی پنجاب کوکن چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے سینئر ریٹائرڈ پولیس افسران کاکہنا ہے کہ آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کو تیزی سے بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ دیگر چیلنجز کا بھی سامنا ہے جس میں سب سے اہم پولیس کو غیر سیاسی رکھتے ہوئے پنجاب کے تمام اضلا ح کے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی نمائندوں کے تحفظا ت کو بھی دور کرنا ہے۔ جس کے لیے ان کو سیاسی نمائندوںسے روابط میں تیزی لانی پڑے گئی۔ کیونکہ ان کی تعیناتی سے قبل جہاں ایوان بالا تک پولیس کارکردگی پہنچ رہی تھی وہیں سیاسی نمائندوں کی جانب سے پولیس رویے کے حوالے سے شکایات کا انبار بھی لگ رہا تھا، ریٹائرڈ پولیس افسران کاکہنا ہے کہ آئی جی پنجاب کو سیاسی دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے سیاسی نمائندوں سے رابطے بڑھانے اور ان کے تحفظات کو دور کرنا پڑے گا، سیاسی نمائندوں کے تحفظات کے ساتھ ساتھ آئی جی پنجاب کو جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح میں فوری کمی لانے اورپولیس ملازمین اور افسران سے نالاں رہنے والی عوام کے دلوں سے خوف نکالنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر آئی جی آفس سمیت پورے پنجاب میں کھلی کچہریاں لگانی پڑے گئی ،آئی جی آفس میں لگنے والی کھلی کچہری میں شکایات پر جب فوری کارروائی اور انصاف ملنا شروع ہو گا تو اس کا اثر تمام اضلاح پر پڑے گا، ریٹائر ڈ پولیس افسران کاکہنا ہے کہ آئی جی پنجاب کو پولیس افسران اور ملازمین کی ٹرانسفر و پوسٹنگ کے لیے بھی ایک میکنزم بنانا پڑے گا ،جس میں پسند نا پسند اور وابستگیوں سے بالاتر رہتے ہوئے میرٹ کو بنیاد بنایا جائے گا۔ پولیس امیج کو بہتر کرنے کے لیے جہاں عوام کو فوری انصاف کے لیے تیزی سے کام کرنا ہوگا وہیںملازمین اور افسران کی فلاح اور تربیت کے لیے بھی کام کرنا پڑے گا۔ ماضی میں تھانہ کلچرمیں تبدیلی کے لیے کام تو کیا گیا لیکن و ہ چند تھانوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جس کو پورے پنجاب تک پہنچانا پڑے گا ،کرپٹ افسران اور ملازمین کے خلاف فوری اور سخت قانونی کارروائی کے ساتھ عوام کو قانون کے تابع بنانے اوران کے دلوں میں جرم کا خوف پیدا کرنے اور پولیس کا خوف ختم کرنے کے لیے کانسٹیبل سے لے کر اعلی افسران تک کو مختلف کورسز کروانے کے لیے ایک سسٹم بنایا جائے۔