ادھر نواز شریف کے سروسز ہسپتال سے اس شدید بیماری کی حالت میں کسی دوسرے ہسپتال نہیں بلکہ اپنے گھر جاتی امراء شفٹ ہو جانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ شہباز شریف نے انڈیمنٹی بانڈ کو تاوان کا نام دیدیا اور اس شرط کو مسترد کر دیا۔ نواز شریف کیلئے ان کے حامی یا کسی انویسٹر نے ساڑھے سات ارب روپے کا انڈمنیٹی بانڈ دینے کی حامی نہیں بھری نہ خاندان والے یہ ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ شہباز شریف کے بانڈ نہ دینے پر وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ میرا بھائی بیمار ہوتا تو میں ہر شرط قبول کر کے اسکے علاج کیلئے باہر لے جاتا سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے تو بھی عمران خان کو یہ پوائنٹ ملنے سے کوئی روک نہیں سکتا بلکہ آسان سا طریقہ تھا کہ ن لیگ والے یا نواز شریف کے خاندان کے لوگ فوراً انڈمنیٹی بانڈ دیتے‘ ایئر ایمبولینس میں نواز شریف کو علاج کیلئے بیرون ملک لے جاتے اور پاکستان کی عدالت میں یہ دعویٰ دائر کر دیتے کہ ان سے غیرقانونی گارنٹی لی گئی ہے جو نواز شریف کی صحت کیلئے اور اسکی بگڑتی ہوئی حالت کے پیشِ نظر دے دی گئی۔ اب چونکہ وہ بیرون ملک جا چکے ہیں اس گارنٹی کی شرط کو کالعدم قرار دیکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں مگر نہ خاندان نے ایسا کیا اور نہ ہی نواز شریف کے دوسرے ’’جانثاروں‘‘ نے حالانکہ کسی تاخیر کے بغیر یہ کام کوئی بھی متوالہ کر سکتا تھا۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا‘ کس نے ہیلتھ کارڈ کھیلا‘ کس کا خون سفید ہوا‘ کس نے سیاست کی‘ کس کی سیاست کامیاب ہوئی نہ ہی یہ بات اہم ہے کہ نواز شریف کے بہت ہی قریبی سینیٹر پرویز رشید کی اس وقت کی ویڈیو جب جنرل پرویز مشرف بیمار ہونے کی وجہ سے پاکستان سے باہر جانا چاہتا ہے اور پرویز رشید یہ کہہ رہے تھے ’’اب ہسپتال میں مشرف بند گلی میں پھنس گئے ہیں انہیں راستہ نہیں مل رہا نکلنے کا کہ وہاں سے کیسے نکلیں۔ پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی ملزم اپنے ملک سے باہر چلا جائے‘‘۔ ابھی پرویز رشید کے بعد نواز شریف کے دوسرے قریبی ساتھی خواجہ سعد رفیق کب پیچھے رہنے والے تھے۔ وہ بولے ’’اگر ان کی بات مان لی جائے کہ انہیں اینجیوگرافی کیلئے ملک سے باہر بھیجنا ہے تو مجھے بتائیں جتنے وہ لوگ جو پاکستان کی جیلوں میں ہیں یا قانون کی گرفت میں ہیں اور دل کے مریض ہیں کیا ان سب کو پاکستان سے باہر بھیجیں گے۔ یہ انوکھا لاڈلہ نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف آرام سے نکل گئے بہانے بازیوں کے ذریعے تو مجھے آپ بتائیں آپ بلوچوں‘ سندھیوں اور پشتونوں کو خاص طور پر کیا جواب دینگے کہ 11 مئی کو جو ووٹ ہماری جماعت کو پاکستانی قوم نے دیا وہ مجرموں کو پکڑنے کیلئے دیا چھوڑنے کا مینڈیٹ ہمیں نہیں ملا۔ تو یہ ڈرامے بازی مشرف صاحب بند کریں۔ اب وہ مرد کے بچے بنیں‘ ذرا مرد بنیں… مرد۔
نواز شریف اور انکے ایک اور جانثار احسن اقبال کے خیالات سے پہلے مجھے تو ن لیگ کی قیادت کے اس وقت کے موقف اور آج کے موقف پر تبصرہ کرنا بھی توضیح اوقات لگتا ہے۔ ان کا تو ہر مسئلہ پر معیار دوہرا ہے۔ آج یہی تو عمران خان کے ساتھی اسے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں لوگوں نے مینڈیٹ مجرموں کو پکڑنے کیلئے دیا تھا انہیں چھوڑنے کے لئے نہیں اور شاید تحریکِ انصاف میں جو پرویز رشید‘ خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کی طرح وزیراعظم کے بہت قریب ہیں انکی بات عمران خان کو پسند آئی اور انسانی ہمدردی کا موقف پسِ پردہ چلا گیا۔ اپنے بیان میں احسن اقبال نے تو حد ہی کر دی۔ پرویز مشرف سے نواز شریف کی نفرت اور نواز شریف سے اپنی وفاداری کا ان الفاظ میں اظہار کیا کہ نواز شریف ان ’’اقوالِ زریں‘‘پر بار بار واہ واہ کر کے احسن اقبال کو تھپکی دیتے ہونگے کیونکہ ان کا فرمانا تھا ’’جنرل مشرف کی ٹیم اور وکلاء جو ملک کے اندر بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں یہ بدترین سازش ہے۔ پاکستان اس قسم کے کھیلوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کوئی ایسا دن اس ملک میں آتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف عدالت کا سامنا کئے بغیر چلا جاتا ہے تو میں تو اس نظام کا ساتھ نہیں دوں گا میں تو کم از کم استعفیٰ دیکر اور سیاست سے ساری عمر کیلئے توبہ کر کے گھر بیٹھنے کو ترجیح دوں گا۔ اگر اس ملک میں ہم اتنی بھی تبدیلی نہیں لا سکتے اور پھر نواز شریف نے خود بھی اس مسئلہ پر زبان کشائی کی۔ ایک انٹرویو میں فرمایا کہ ’’safe exit‘‘ کی بات کریں تو میں سمجھتا ہوں جس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہو‘ جس نے آئین توڑا ہو یا جرائم کئے ہوں اسے قانون کی گرفت میں آنا چاہئے‘‘۔
اب اپنی باری آئی ہے تو ن لیگ کی لیڈرشپ کا معیار بدل گیا۔ یہ تو لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنا دیا اور عملاً نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی راہ میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹ ختم کر دی جو در اصل تحریکِ انصاف اور ن لیگ دونوں کی انا یا ہٹ دھرمی کی رکاوٹ تھی۔ ن لیگ کی لیڈرشپ کی یہ انا اور ہٹ دھرمی البتہ نواز شریف کی زندگی اور صحت دونوں سے ہی زیادہ اہم اور طاقتور ثابت ہو چکی ہے۔ نوازشریف اس انا پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں ممکن ہے اپنے خاندان اور جماعت کی صحیح سوچ کا اندازہ نہ کر سکے ہوں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے خاندان اور جماعت کو نوازشریف کی زندگی اور صحت دونوں ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے تھا مگر عملاً ایسا نہ ہوا۔ بیمار بستر مرض پر اور انا پرست بیان بازی کی تھیراپی سے علاج کرتے رہے اور مریض کا مرض بڑھتا رہا‘ یہ سب نشانِ عبرت ہے۔اتنا طاقتور شخص اپنی بیماری کی تشخیص کا حق استعمال کرنے کیلئے اپنوں اور بیگانوں دونوں کو ہی انسانی ہمدردی پر ہی سہی متحد نہ کر سکا۔ سازشیں کرنے اور سازشیوں کو تھپکی کی سزا اسے اس سے زیادہ کیا مل سکتی تھی کہ اگر عدالت اسے بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دیتی تو اس کا خاندان یا ن لیگ کی لیڈرشپ انڈمنیٹی بانڈ کو نواز شریف کی زندگی سے زیادہ اہمیت دے رہی تھی اور مسلسل انکار سے اپنی انا پرستی اور اپنے لیڈر کی طرف سے اپنی عملاً لا تعلقی کا پیغام دے رہی تھی۔ نواز شریف کا مرض تشخیص ہوتا ہے‘ اس کا علاج ہوتا ہے‘ اسکے بارے میں امید اور یقین کے باوجود اس کے ساتھ جو کچھ پاکستان میں ہو چکا ہے وہ اس کی طاقت کے گھمنڈ اور ساری سیاست کو خاک میں ملا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے پاس اگرچہ کوئی حکومتی عہدہ نہ تھا مگر اسکی طاقت اور اختیار ان تینوں حکمرانوں سے زیادہ تھا۔ اس کا خوف اور ڈر انگلینڈ میں بیٹھ کر بھی کراچی اور حیدرآباد کے مکینوں کیلئے عذاب کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کی ٹیلی فون پر تقاریر سنوانے کے اہتمام اور ہر کسی کی حاضری یقینی بنانے‘ اسے ہمہ تن گوش ہو کر سننے اور پوری دلجمعی اور توجہ سے اسکے احکامات پر عمل نہ کرنے کا تو کہیں تصور بھی نہ تھا۔ ہر چینل اپنا پروگرام روک کر اسکے خطاب کو نشر کرتا۔ الطاف حسین کی طاقت نے بربریت اور ظلم و ستم کی جو شکل اختیار کر لی تھی اسکے سامنے شریف اور بدمعاش حکمرانوں اور رعایا سبھی کی ایک ہی حیثیت تھی۔ اطاعت گزاری والی حیثیت اسے جنرل راحیل شریف کے فوج کی سربراہی کے دوران کور کمانڈر کراچی‘ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے خبر گیری کی اور پھر عدالت نے اسکے خطاب کو نشر کرنے اور ویڈیو لنک کے ذریعے لوگوں کو سنانے پر پابندی لگائی تو الطاف بھائی کے اپنے چہیتے اسے چھوڑ گئے۔ وہ کسی بھتہ دینے والے سے بھی زیادہ اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے‘ کئی بیماریوں کی لپیٹ میں آیا ہوا الطاف حسین لندن میں ہونے کے باوجود تندرست نہیں ہوا۔ بیماریوں کی تشخیص اور نہ ہی شفایابی اس کی قسمت میں ہے۔ میرے ملک کو برباد کرنے میں اس کا کردار آج بھی کئی حکمرانوں سے زیادہ بھیانک نظر آتا ہے۔غرضیکہ میرے ملک کو لوٹنے والے حکمران اور سیاستدان ایسی ایسی اذیت ناک بیماریوں کی زد میں ہیں کہ انکی ساری لوٹی دولت انکے کسی کام نہیں آ رہی۔ کاش یہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور اس کا انعام سمجھ کر یہاں کے لوگوں کی خدمت کرتے اور ماضی قریب کے وہ سارے کرداروں اور انکے خاندانوں کا انجام اپنے پیشِ نظر رکھتے جنہوں نے پاکستان سے غداری کی‘ اسے نقصان پہنچایا‘ پاکستان توڑنے کے جرم میں ملوث پاکستان کے دونوں لیڈروں شیخ مجیب الرحمن کا سارا خاندان ایک بیٹی کے سوا غیر فطری موت مرا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ بھٹو کی بیٹی قتل ہو گئی‘ ایک بیٹا اس وقت قتل ہوا جب اس کی بہن وزیراعظم تھی۔ دوسرا شراب نوشی کی کثرت سے مر گیا۔ بیوی سسک سسک کر بے بسی سے زندگی گزار گئی۔ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی قتل ہو گئی‘ اس کا ایک بیٹا راجیو گاندھی قتل ہوا‘ دوسرا بیٹا حادثے میں مر گیا۔ دونوں لیڈروں کا المناک انجام۔
یحییٰ خان کی گمنامی اور بے نامی موت اس کے ماتھے پر لگنے والی ذلت و رسوائی کے داغوں کو نہ دھو سکی۔اب بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بنیں گے خواہ انہوں نے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچایا‘ معاشرتی ڈھانچے پر ضربیں لگائیں۔ (ختم شد)