اسلام آباد (وقائع نگار) پاکستان کے دارالحکومت میں اراضی کے حصول کے بعد معاوضوں کی عدم ادائیگی پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گورننس پر سوال اٹھائے ہیں۔ جمعرات کو مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں اشرافیہ کا قبضہ ہے اور غریب کو اراضی کا معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ فاضل چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ اگر لوگوں کو ان کے حقوق نہ ملے تو عدالت بہت سخت فیصلہ دے گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اراضی ایکوائر ہونے کے بعد بھی متاثرین کو معاوضوں کی عدم ادائیگی کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے سی ڈی اے کی جانب سے متاثرین کو معاوضوں کی عدم ادائیگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جن لوگوں سے باپ دادا کی زمینیں چھینی گئیں وہ معاوضوں کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں اشرافیہ کا قبضہ ہے اور غریب کو اراضی کا معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ وزیر اعظم ٹھیک کہتے ہیں دو پاکستان ہیں، ایک پاکستان امیر اور طاقتور کے لیے اور دوسرا غریب کے لیے، ہر ایک کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔ یہ 75 سالوں کا عکس ہے کہ اس ملک کو کیسے چلایا جا رہا ہے۔ 1968 اور 1976کے معاوضے اب تک نہ ملنے پر کیا جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟۔ عدالت کیوں نہ سی ڈی اے کے تمام چیئرمینوں اور اس دوران لگائے گئے بورڈ ممبران پر بھاری جرمانے لگائے؟۔ عدالت نے سی ڈی اے کے وکیل سے کہا کہ آپ نے لوگوں کے ساتھ جو کیا درخواست گزار کو اب کیا پتہ ہوگا۔ سی ڈی اے نے لوگوں کو پاگل کردیا ہے پچاس سالوں سے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے لوگوں کے معاوضے پیمنٹ کیسے کرتا تھا؟۔ یہ عدالت یہی کہہ سکتی ہے کہ یہ ملک آئین کے تحت نہیں چلتا۔ ستر سالوں کی گورننس کا نتیجہ ہے کہ یہ ملک گورننس کے بغیر کیسے چلتا ہے۔ 1968 سے چیزیں پینڈنگ ہیں، کیسے بتائیں گے تاخیر کیوں ہوئی؟۔ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ وہ عدالتوں میں آئیں۔ باعث شرم ہے کہ اس شہر میں ہو کیا رہا ہے۔ اگر لوگوں کو ان کے حقوق نہ ملے تو یہ عدالت بہت سخت فیصلہ دے گی۔ عدالت نے تمام متعلقہ کیسز کی سماعت آج تک کے لیے ملتوی کر دی۔