آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں 

Dec 11, 2020

ڈاکٹر سعدیہ بشیر

’’دینے والا ہاتھ مانگنے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے‘‘۔ان کہاوتوں ، ضرب المثال اور روایات کی کہانی بڑی عجیب ہے۔ یہ ان  زمانوں میں خوب پنپتی تھیں جب بات سے زیادہ مقصد و مفہوم کو اہمیت دی جاتی تھی۔ڈانٹ ڈپٹ کو ہنس کے ٹالا جاتا تھا اور بہتری کے امکانات پر توجہ مرکوز رکھی جاتی تھی۔ محمد حسین  آزاد کا ’’محنت پسندخرد مند ‘‘ دیکھیں تو معاشرہ کی تصویر کو زیادہ  بہتر طور سے سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ جماعت ہر شعبہ میں موجود ہے اور سیاست سیاست کھیلنے میں مگن ہے۔پچھلے دنوں اساتذہ کے الیکشن میں ان کے چمتکار دیکھنے والے تھے۔ہر کالج میں گروہ در گروہ دندتاتے اور خود ہی بیلٹ باکس اکٹھے کرتے رہے۔خدا جانے یہ باکس کہاں دبائے گئے کہ جب کھلے تو ایک دنگل مچا۔بات تو یہ بھی پوچھی جا سکتی ہے کہ کس حیثیت سے کئی کالجز میں  سیاست دانوں سے بھی بڑے بورڈز پر ان گروپس کی تصاویر جگمگاتی رہیں اور طلبہ کو کس لیے  بالواسطہ  طور پر اس جنگ کا حصہ بنایا گیا۔سوال یہ ہے کہ ان اساتذہ تنظیموں کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا اور کالجز کے صاف شفاف ماحول کو الیکشن کا اکھاڑا بنانے کی تجویز کس نے دی۔جیتنے والے اساتذہ کی زبان ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس کھیل کا حصہ ہیں جہاں الزام تراشی کی روایت مضبوط اور پختہ تر کی جارہی ہے۔
ایک ادبی حلقے کے کامیاب امیدوار جن کی چیخ سب سے بلند تھی ان کو اپنے مسائل حل کرنے سے زیادہ یہ فکر ستا رہی ہے کہ جیتنے والے  اساتذہ کمیونٹی کے مسائل حل کریں۔ دوا کے دعوی دار کٹورے تھامے جنتر منتر کرتے نظر آتے ہیں اور اپنی مسند کو اولیاء کی کرامات بتاتے ہیں۔تہمت تراشی کی یہ دیمک سیاست سے شروع ہوئی اور ایسے پھیلی کہ سوائے اس پر پردہ ڈالنے کے کوئی چارہ نہیں رہا۔محنت کشوں کی اقسام اور گروہ اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ وسائل کی فصل کا پتہ ہی نہیں چلتا ، کس ہاتھ میں گئی۔وسائل کی یہ فصل ہاتھ کی صفائی اور بے رحمی سے کاٹی جاتی ہے کہ اگلی فصل کے لیے پنیری جڑوں کے اوپر ہی کاشت کرنا پڑتی ہے۔اس فصل کے ثمرات بورڈز اور اشتہارات کی صورت راستے کے دونوں طرف آویزاں نظر آتے ہیں۔مثلا  چینی ہر دکان پر دستیاب ہے۔خود احتسابی  سب کے لیے۔ ہتھیاروں کی رنگا رنگی میں وہ سپاٹ لائٹ کہیں میسر نہیں جس کی روشنی میں انصاف کی دکان ، اخلاق کے لوازمات اور سماجی شعور کی کتب تلاش کی جا سکیں۔جدید دور کے  کیمرے بھی اپنی مرضی کے مالک ہیں. جہاں جی چاہے آن ہو جاتے ہیں۔ زخمیوں کا لہو نہیں دکھاتے ،ان کے زخموں کی طرف رخ نہیں کرتے۔انہیں کہانی اپنی زبانی بتانے کا شوق لے ڈوبا ہے۔دشت تو دشت اور دریاؤں کا کیا کہیں. لگتا ہے کہ ہم نے اپنے کیمرے ماضی کی قبروں میں رکھ چھوڑے ہیں اور حال میں  وہ تصاویر دکھانے کی کوشش  کر رہے ہیں جو وہ لوگ نہیں دیکھ سکے.محنت کشوں کا لبادہ اوڑھے اس جماعت نے اپنے لیے مصنوعی لیکن تیز رفتار اور طاقت ور راہ چنی ہے. جس کے لیے غم کا غازہ بھی ضروری ہے اور امداد باہمی کی تصاویر بھی۔دور جدید میں ہتھیار بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ذرائع مواصلات بھی جدید ہو گئے ہیں۔ اب مائک وہ ہتھیار ہے جو زبان کے تیروں کا نشانہ بند کمروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں بھی لگا سکتا ہے۔ زخم دے سکتا ہے اور ایسی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے جس کے لیے لامحالہ ایسے ہی  کسی ہتھیار کا سہارا لینا پڑتا ہے. اس کے لیے زبان ناکافی ہے ایک دن کی زندگی جینے والی خبر کیا کسی کے لیے مرحم بن سکتی ہے؟ ہر نیا سال اپنے ساتھ کتنی ہی انہونی خبریں اور حادثات لے کر آتا ہے. ہم جینے والوں کو مرتا دیکھتے ہیں اور مرنے والے خبر بن کر ردی کی ٹوکری بن جاتے ہیں. تبدیل تو کفن بھی نہیں ہوتے اور ہم چاہتے ہیں کہ کیمرہ اپنی اک کلک سے آگے جہان معنی تبدیل کر کے دکھا دے. ''محنت پسند خرد مند'' تو محنت کی علامت تھا یہاں تو عقل بند جنازے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں. اس بات کی تصدیق کون سا کیمرہ کرے گا کہ بند کمرے میں ڈی جے کی گرفتاری کے لیے ماسک کا ڈھاٹا باندھے لوگ اپنے ہی تھے یا پرائے۔ویڈیو کیمرہ کس نے آن کر کے دہائی دینا چاہی۔اس خبر کی تصدیق  تک کئی آنکھوں پر پٹی بندھی رہے گی۔سنا ہے پی ڈی ایم کا لاہور میں ہونے والا جلسہ ان کیمروں کی بند آنکھوں کی زد میں ہے. جنہوں نے بس یہی دکھایا ہے کہ مینار پاکستان کے گراونڈ میں حکومت پانی چھوڑ چکی ہے. اب یہ تخیل کی اپج ہے یا کم نظری کہ گراونڈ کا ایک چھوٹا سا حصہ پانی کا تالاب نظر آتا ہے. صد شکر کہ اہل بصیرت بھی عقل والے ہیں ورنہ خبر یوں بھی بنتی ہے’’پی ڈی ایم نے اپنا جلسہ مریخ پر منعقد کر کے ثابت کر دیا حکومت جانے والی ہے. مریخ کا گراونڈ پچاس لاکھ کرسیوں سے بھر گیا۔‘‘ سناٹے میں تالیوں کی گونج سنائی دینے لگے۔ جو چاہے حسن کرشمہ ساز کرے۔

مزیدخبریں