دستور پاکستان تمام شہریوں کی برابری ومساوات کی ضمانت دیتااورصنفی بنیادوں پر امتیاز کی نفی کرتا ہے ۔آئین پاکستان نے ریاست پر لازم کردیا ہے۔ وہ زندگی کے تمام شعبوں میںعورت کی بھرپور شرکت یقینی بنائے، نیز ، شادی ، خاندان ،ماں اوربچے کے ادارے یعنی ان کے وجود ، حیثیت، آزادی اور احترام و عزت کا تحفظ کرے۔ چنانچہ ریاست نے آئین کے تقاضے اور روح کے مطابق عورت پر تشدد کی لعنت کی روک تھام کے لئے کئی قوانین بنائے اور انتظامی و معاشرتی سطح پر متعدد اقدامات کئے ہیں لیکن قوانین کے نفاذ اور اقدامات پر نیم دلانہ اور کمزور عمل درآمد کے باعث مطلوبہ نتائج اور فوائد حاصل نہیں ہوسکے۔ بعض جسمانی اختلافات کے سوا، ہمت ، طاقت، علم ودنش اورفراست میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ عورت اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ پدرسری اور پسماندگی ایسی لعنتوں نے عورت کو صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے روک رکھا ہے ۔ مرو رایام سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ معاشرے ہی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ، جنہوں نے عورت کو کم تر مخلوق بنا رکھا ہے۔
ایک اور تشویش ناک امر یہ ہے کہ عور ت کو مرد کے برابر کا درجہ دینا تو کجا اُلٹاخواتین پر تشدد مثلاً غیرت کے نام پر قتل ، تیزاب پھینکنے ، زنا بالجبر ،جنسی ہراسگی،بدسلوکی اورمارپیٹ کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ ان برائیوں کے سدباب کے لئے سخت سزائیں ہی کافی نہیںبلکہ جب تک مذکورہ خرابیوں کے اصل اسباب کا تدارک نہیں کیا جائے گا اور انہیں جڑسے نہیں اکھاڑ پھینکا جائے گاتمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ ہمارے معاشرے میں ان خرابیوں کا اصل سبب تو پدرسری نظام (مرد کی عورت پر بالا دستی ) ہے۔ اب تو حالات بڑی حد تک بدل چُکے ہیں ورنہ اسلام کے آنے سے پہلے صنفی امتیاز اور تفریق کا یہ عالم تھاکہ جب کسی کو یہ اطلاع دی جاتی کہ اُس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے ،تو اُس کا چہرہ لٹک جاتا تھا۔و ہ (مارے شرمندگی کے) منہ چھپائے پھرتا تھا ۔ اُسے سمجھ نہیں آتی تھی ،کہ وہ اسے زندہ گاڑ دے یا اس ’’ذلت‘‘ کو عمر بھر گلے لگائے پھرے۔اسلامی تعلیمات سے بے بہرور ہونے کے باعث ہمارے معاشرے کے حالات قدرے بہتر ہیںلیکن اب ابھی بھی بعض طبقوں میں عورتوں پر تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔
ان سماجی برائیوں کے خاتمے کی خاطر عورت کے بارے میں دقیانوسی تصورات اور اندازِفکر (مائنڈسیٹ)کا خاتمہ کرنا ہوگا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ عورت مالی طور پر خود کفیل ہو، وہ اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے مرد کی محتاج نہ رہے ۔ لیکن اس کے لئے سب سے پہلے عورت کوزیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا۔ اعلیٰ تعلیم کی وافر سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ پھر اُنہیں سرکاری اور قومی زندگی کے دوسرے شعبوں میں آباد ی کے تناسب سے ملازمتیں فراہم کرنا ہوں گی، تاکہ وہ مالی طور پرمرد کی دستِ نگرنہ رہے اور ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے مرد کی محتاجی سے بے نیاز ہوجائے۔ فیملی لاز کے ہوتے ہوئے بھی بعض خواتین غلامی کی زندگی بسر کرنے کے علاوہ کوئی راہ نہیںپاتیں۔میری رائے میں خواتین کو قانون سازاداروں، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ عدلیہ میں بھی بھرپور شرکت کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔
عورت، ذہا نت،محنت اور تخلیقی صلاحیتوں کے لحاظ سے مرد سے کسی طرح کم نہیں ۔ مگر فرسودہ رسوم ورواج کے باعث، جسد قومی کے اس آدھے حصّے کو مفلوج بنا کر رکھ دیا گیاہے ۔ ترقی یافتہ معاشروں کی ترقی کا راز ہی یہ ہے، کہ اُنہوں نے مرد اور عورت کے درمیاں صنفی امتیاز کو ختم کر دیا ہے۔ اس کے برعکس مسلم معاشروں میں خواتین کو وہ حقوق بھی نہیں دیئے گئے جو اسلا م نے اُنہیں دے رکھے ہیں۔عقیدہ تو یہ ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے لیکن عملاً باپ نے اپنی اولاد کی جنت کو قدموں تلے روند کر رکھ دیاہے۔ ماں کو ماں ، بہن کو بہن اور بیٹی کو بیٹی کے حقوق دینے سے انکاری ہے۔ پاکستان میں جنسی ہراسگی کے قانون کے باوجود عورت باہر نکلتی ہے ، تو سہمی سہمی۔ دفاتر میں اپنے آپ کو غیر محفوظ پاتی ہے۔عدالتوں میں عورت کو انصاف کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر بھی مجرم ذہنیتوں کو مزید دیدہ دلیر بنا دیتی ہے۔اس خرابی کے ازالے کیلئے ،ماتحت فوجداری عدالتوں میںعورتوں سے ناانصافی کے مقدمات کے جلد اور موثر فیصلے ہونا ضروری ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو، ایسے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر بِلاالتواء سماعت کی جائے مگر یہ اُسی صورت ممکن ہے ، کہ پریذائیڈنگ آفیسرپر اسیکیوٹرزاور قانونی برادری کے ارکان یعنی وکلاء حضرات عدالت سے تعاون کرنے کاعزم کر لیں۔ جج صاحبان ایسے مقدمات کے جلد ازجلد یاکم سے کم وقت میں فیصلہ کرنے کے لئے ہر موزوں اور مناسب اقداما ت کریں ۔ حق تلفی سے دوچار فریق (عموماً عورتیں) کو جلد انصاف فراہم کرنے کے لئے اس طرح ٹھوس اور مدلل فیصلے تحریر کریں کہ فیصلے چیلنج ہونے یعنی اپیل کی صورت میں اعلیٰ عدالتیں بھی ماتحت عدالتوں کے برقرار رکھنے پر مجبور ہوجائیں۔ اگر جج صاحبان فیصلہ تحریر کرتے وقت سنجیدہ نہیں ہیں تو وہ اپنے منصب سے مخلص نہیں ہیں،جو کہ بہت بڑی خامی یا نقص ہے بلکہ صاف لفظوں میں وہ منصب قضاء کیلئے اہل ہی نہیں۔