اپوزیشن کو کس کی شہہ حاصل ہے

اس وقت پی ڈی ایم جمہوریت کو تہہ و بالا کرنے کے درپے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جلسے جلوسوں، دھرنوں اور لانگ مارچ سے حکومت نہیں گرائی جا سکتی۔ اپوزیشن کاا لزام یہ ہے کہ پاکستان میں فوج آئی ایس آئی  اور اسٹیبلشمنٹ مل جل کر جمہوری حکومت کو آئینی ٹرم پوری نہیں کرنے دیتے۔  میاں نواز شریف اور  محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان جو میثاق جمہوریت طے ہوا تھا اس میں واضح طور پر دونوں نے تسلیم کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے لیے ایجنسیوں کے اشارے پر چلتے رہے ہیں  اس لیے انہوں نے عہد کیا  کہ وہ آئیندہ کے لیے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے ۔ اور عوام جس پارٹی کو اکثریتی ووٹ دیں گے وہ پارٹی پانچ سال حکومت کرتی رہے گی  مگر میثاق جمہوریت کو سب سے پہلے میاں نواز شریف نے اس وقت توڑا جب وہ کالا کوٹ پہن کر زرداری حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ۔زرداری اور نواز شریف کے درمیان بھی اچھا بچہ بن کر رہنے کے کئی معاہدے ہوئے مگر زرداری نے کہا کہ وعدے قرآن حدیث کا درجہ نہیں رکھتے ، محترمہ تو میثاق جمہوریت کی لاج رکھنے کے لئے دنیا میں موجود نہیں تھیں مگر زرداری اور نواز شریف نے بھی پرانے اور نئے وعدوں کو ٹھوکر مار دی ۔ زرداری دور میں یوسف رضاگیلانی کو رخصت کر وایا گیا  ، خود زرداری کو اقتدار سے نکلوانے کے لیے بھی کئی تاریخیں دی جاتی رہیں مگر طوطوں کی فال درست ثابت نہ ہوئی اور زرداری نے جوں توں اپنے پانچ سال پورے کر لیے۔ دوو ہزار تیرہ میں میاں نواز شریف کو حکومت ملی تو زرداری نے بھی سارے بدلے چکانے کا فیصلہ کرلیا اور میاں نواز شریف کی حکومت پانامہ کیس کی بھینٹ چڑھ گئی ۔
اب اٹھا رہ کے الیکشن کے بعد  عمران خان کی حکومت آئی ہے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوج اور حکومت ایک پیج پر نظر آتے ہیں۔ یہ صورتحال اپوزیشن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ کبھی عمران خان پہ  حملے ہوتے ہیں اور کبھی آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کو حکومت کا حامی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ، آئین کی رو سے حکومت فوج اور تمام سرکاری اداروں کو تال میل کے ساتھ چلنے کا پابند کیا گیا ہے مگر نواز شریف نے جو خود فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کی پیدا وار ہیں‘ہر آرمی چیف سے لڑائی مول لی ، زرداری نے بھی راحیل شریف کا نام لئے بغیرکہا کہ تم تین سال کے لیے آئے ہو ہم سیاستدان ہمیشہ کے لیے اس میدان میں رہیں گے ۔آج ستم ظریفی یہ ہے کہ  فوج اور حکومت ایک ساتھ نظر آتی ہے مگر اپوزیشن چاہتی ہے کہ ان میں دوری پیدا ہو جائے ۔اور فوج حکومت کو سہارا نہ دے۔  اس حقیقت سے ہر کوئی آگاہ ہے کہ عمران خان کو خالی خزانہ ملا تھا جسے بھرنے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ذاتی طور پر کوششیں کیں اور ان کی کوششیں رنگ لائیں ۔ نواز شریف کی رخصتی کے بعد پاکستان ڈیفالٹ کے دھانے پر تھا ۔ مگر آج زر مبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر کی حد پار کر چکے ہیں ۔کرونا کی تباہی کے باوجود ملک کی معیشت بحالی کے راستے پر گامزن ہے ۔پاکستان میں دو بڑے ڈیم بن رہے ہیں ۔ سی پیک اور گوادر تکمیل کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں  جس کی بنا پر اپوزیشن کا سر چکرا گیا ہے کہ کامیابیوں کا یہ سفر جاری رہا تو نہ صرف اگلے الیکشن میں وہ عمران خان کو نہیں ہرا سکیں گے بلکہ باقی تین برسوں  میں وہ جیلوں کی ہوا کھائیں گے یا جلا وطنی کے جہنم میں جلیں گے یا انھیں سیدھے سبھائو اپنی لوٹ مار کی اربوں کی دولت پاکستانی عوام کو واپس کرنی پڑے گی۔ عمران خان میدان میں ڈٹا کھڑا ہے کہ کرپشن پر کسی کو این آر او نہیں دے گا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے  کہ اپوزیشن کا لہجہ روز بروز تلخ کیوں ہوتا جا رہا ہے اور و ہ  بلف کھیل کر اپنے آپ کو پر اعتماد کیوں ظاہر کر رہی ہے ، ظاہر ہے پاکستانی فوج تو ملک میں انتشار نہیں چاہتی ، جمہوریت کو پائیدار بنانا چاہتی ہے تو پھر وہ کون سی طاقت ہے جو اپوزیشن کو شہہ دے رہی ہے کہ شیر بن شیر بن ۔ ممکنہ طور  پر پاکستان کی مخالف طاقتیں اپوزیشن کی پیٹھ ٹھونک سکتی ہیں ، بھارت کے ارادے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور افغانستان نے بھی پچھلے بہتر سالوں میں پاکستان کو چین نہیں لینے دیا ، بد قسمتی سے خلیجی اورعرب ممالک کی رغبت اسرائیل میں بڑھ رہی ہے اور اسرائیل بھی پاکستان کا کھلا دشمن ہے۔ پاکستان کی ایٹمی اور میزائل قوت اور مضبوط فوج دنیا کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لیے تازہ ترین خطرہ بھارت کی طرف سے منڈلا رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر پلوامہ کی طرح کوئی ڈرامہ رچاناچاہتا ہے اور پاکستان میں اپوزیشن کی طرف سے پھیلائے ہوئے انتشار کا فائدہ اٹھا کر کسی سرجیکل اسٹرائیک کی سازش کر رہا ہے ۔
پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کو وقتی سیاسی مفاد سے بالا تر ہو کر ملک کی سلامتی اور قومی دفاع کو یقینی بنانے کی سوچ رکھنی چاہئے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اپوزیشن بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے لیکن مجھے سو فی صد یقین ہے کہ بھارت اس انتشار کا فائدہ ضرور اٹھائے گا جو ہماری اپوزیشن جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کے سلسلے میں پھیلا رہی ہے۔ اکہتر میں پاکستان اندرونی انتشار کا شکار ہوا تھا تو بھارت نے جھٹ پٹ اس کا فائدہ اٹھا یا ، بھارت کی نظریں آج پھر پاکستان کے اندرونی انتشار پر لگی ہوئی ہیں اور اگر ہماری اپوزیشن نے قومی ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور بھارت کے مذموم ارادوں کو پہچاننے کی کوشش نہ کی  تو پھر جو نتیجہ نکلے گا وہ ہر ایک کو معلوم ہے۔ اس کے لیے کسی طوطے کو فال نکالنے کی زحمت نہیں دینا پڑے گی ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن