حکومت آنے سے قبل مختلف جماعتیں یہ دعوے کرتی ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے مدد نہیں لیں گی مگر جب اقتدار میں آتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کے بغیر جی نہیں سکتیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ قوم کو بیوقوف بنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جوموجودہ وزیراعظم ہیں۔126 دن کے دھرنے میں بڑے بڑے دعوے کرتے تھے۔ ان دعوئوں میں آئی ایم ایف سے مدد نہ لینے کا دعویٰ بھی شامل ہے۔ نوجوانوںکیلئے نوکریاں اور غریبوں کو گھروں کا دعویٰ تو درکنار‘ آئی ایم ایف کے بارے میں بار بار یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اس سے مدد نہیں لیں گے بلکہ اس کی غلامی سے آزاد ہونگے اگر ماضی کی تاریخ دیکھیں تو پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس نے اپنی چار حکومتوں میں آئی ایم ایف سے بھرپور مدد نہیں لی اور نہ ہی آئی ایم ایف سے کوئی معاہدہ کرکے اقتدار میں آئی۔ صرف وہ معمولی سی مدد لی جو تمام دنیا کے ملک لیتے ہیں اور اس کے قرضے بھی برابر سے ادا کیے، نہ کہیں اپنے محلات بنائے نہ اپنی انڈسٹری لگائی، بلکہ ہیوی مکینیکل ٹیکسلا چین کی مدد سے بنایا گیا یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کاکارنامہ تھا جبکہ سٹیل مل کراچی بھی آئی ایم ایف کی مددسے نہیں بنائی وہ بھی بھٹو حکومت نے روس کی مدد سے بنائی۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کیلئے تڑپ رہی تھی۔ افسوس آئی ایم ایف کی تمام شرائط مانی گئیں، معاہدہ میں کوئی شرط پاکستان کے حق میں نہیں، حکومت تمام معاہدہ قوم کے سامنے لائے اور بتائے کہ کتنا قرضہ لیا ہے۔ اور کہاںکہاں خرچ ہوگا کیونکہ بہت شور تھا اس معاہدہ کا۔ شوکت ترین تو خود آئی ایم ایف کے نمائندہ ہیں ان کا پاکستان کی سیاست اور قومی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بظاہر وہ پاکستانی ہیں انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور مزیدبجلی بھی مہنگی ہوگی ۔ حکومت کہتی ہے معاہدے کے تحت ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر ملیں گے اور پٹرولیم لیوی میں ماہانہ چار روپے اضافہ ہوگا اور بجلی کے نرخ میں ایڈجسٹمنٹ جی ایس ٹی پر استثنیٰ ختم کرنا ہوگا۔ شوکت ترین سے کوئی پوچھے کہ پانچ شرائط تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے قوم سے پوچھا تھا یا اپوزیشن سے مشاورت کی تھی۔ ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ سٹیٹ بنک کو گروی رکھا آئی ایم ایف کے ہاتھ اور سٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کی حکومت اور شوکت ترین کو کس نے اجازت دی ہے کہ من مانی کرے اور فرماتے ہیں کہ ہم اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ اس سے ملک کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد ملے گی اور جی ایس ٹی اصلاحات سپلیمنٹری فنانس کی صورت میں ہوگا۔ جناب وزیرخزانہ صاحب قوم کو آپ کی زبان سمجھ میں نہیں آ رہی۔ قوم صرف مہنگائی سے نجات چاہتی ہے۔ لہٰذا آپ پانچ شرائط کو قوم کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ کی کیا وجہ ہے جبکہ گیس کی قیمت میں اضافہ بھی کر دیا گیا ہے‘ اگر وزیراعظم کہتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ مجبوری ہے تو وہ مجبوری قوم کے سامنے لائی جائے ایسا نہ ہو کہ ہماری معاشی حالت کی آڑ میں ہماری سلامتی اور خودمختاری کو گروی رکھ دیا جائے کیونکہ تین سالوں میں ملکی معیشت مکمل طور پر برباد ہوئی ہے اور اطلاع یہ ہے کہ یکم دسمبر کومہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے جس سے سب سے زیادہ سفیدپوش طبقہ متاثر ہوگا۔ ان تمام مشکلات میں افسوسناک بات یہ ہے کہ ادویات کی قیمتوں میںخطرناک حد تک اضافہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا جبکہ قرض ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مستقبل میں اس میں کوئی بہتر صورتحال نظر نہیں آ رہی ہے ‘اگر ماضی میں دیکھا جائے تو تین سالوں میں موجودہ حکومت نے 580 ملین ڈالر سے زیادہ قرضہ لیا جبکہ پچھلے چار ماہ میں حکومت نے 3.8ارب ڈالر قرضہ لیا جو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ معاشی قرضہ ہے۔ پیپلزپارٹی کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ حکومت تمام قرضوں کی فہرست شائع کرے‘ قوم کے سامنے ہر چیز واضح کرے جو ایک جمہوری حکومت کا طریقہ ہوتا ہے اور بتائے کہ آئی ایم ایف سے تین سالوں میں کیا ڈیل ہوئی‘ کیا آئی ایم ایف پاکستان کیلئے ایک عذاب ہے یا عالمی ادارہ۔
آئی ایم ایف یا عذاب؟
Dec 11, 2021