دنیا نے وہ بھی دیکھاکہ جب اے کے پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو صدر او ر وزیر اعظم کی تقاریب حلف برداری میںپروٹوکول کو پامال کرتے ہوئے افواج کے سربراہان نے شرکت سے معذرت کردی کہ ان تقاریب میںصدر اور وزیر اعظم کی بیگمات سکارف کے ساتھ شرکت کررہی ہیں اورکہاں آج کا انقلاب کہ ترکی میںسرکاری دفاتر تعلیمی اداروں میںحجاب اور سکارف کے ساتھ خواتین اپناکردارادا کررہی ہیں حتیٰ کہ زندگی کے ہرشعبے میں اس رجحان میںتیزی سے اضافہ ہوا،مجھے ترکی کے دوستوں نے بتایاکہ صدر علوی کی خاتون اول حالیہ دورے کے موقع پر بغیر سکارف تصویروں میںنظر آئی تو بہت عجیب محسوس ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی خاتون اول کیوں تہذیبی علامت کے بغیرہیں جبکہ ترکی کی خاتون اول سکارف کے ساتھ بہت فخر سے بین الاقوامی دوروں اور کانفرنسز میں اہم کردار ادا کررہی ہیں،اردگان حکومت نے ایک طرف یورپی یونین میںمستقل ممبر شپ حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے تو دوسری طرف مسلم دنیا کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ،بالخصوص مسئلہ فلسطین اور کشمیرکے حوالے سے عالمی سطح پر موثر آواز بلند کی غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے ترکی کی ایک عالمی رفاعی تنظیم آئی ،ایچ ،ایچ کے ذریعے فریڈم فلوٹیلاچلانے کا اہتمام کیا جس پر اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں متعدد لوگ شہید اور زخمی ہوئے لیکن اس جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل ساری دنیا میںبے نقاب ہوا بلاآخر غزہ میںپھنسے فلسطینیوں کوریلیف ملا۔اقوام متحدہ ،او آئی سی اور ودطرفہ سطح پر کشمیر پر جاندار موقف اختیار کیا 2005ء کے زلزلہ اور 2008ء سیلاب کے دوران ترکی کی حکومت عوام اور اداروں نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو میںقائدانہ کردار ادا کیا،اس طرح براعظم افریقہ جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے مغربی استحصالی طاقتوں کو خصوصی نشانہ بھی ہے کو اپنی توجہ کا ہدف بنایا اس براعظم میں ریلیف کے نام پر کرسچین مشنریزکا توڑ کرنے کے لیے حکومتی اور رفاعی اداروں کے ذریعے بھرپور توجہ دی ،ترکی کی جان سو اور آئی ،ایچ ،ایچ جو دنیا کے تقریبا 100ممالک میںاپناایک ریلیف نٹ ورک چلار ہی ہیںکو براعظم افریقہ پر توجہ دینے کے لیے خصوصی سہولتوںکااہتمام کیا،ترکی مسلم دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے افریقہ کے تقریبا تمام ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کیے ،اس وقت چین افریقہ پر توجہ دینے والا پہلا ملک ہے جس کے 48سفارت خانے ہیںاس کے بعد ترکی جس کے 43سفارت خانے قائم ہوچکے ہیں یوں چین کے بعد براعظم افریقہ ترکی منصوعات کی ایک بڑی منڈی کی شکل اختیار کررہاہے،( امریکہ فرانس اور برطانیہ یہ خطہ خاص ہدف ہے۔
اروگان افریقی ممالک کے کئی دورے کرتے ہوئے اداراتی سطح پرتعلقات کو مضبوط کررہے ہیں باہم تعلقات کو مضبوط ترکرنے کے لیے تعلیمی ڈپلومیسی کو بھی اردگان حکومت نے کمال ہنرمندی سے بروئے کار لائے اور بڑے پیمانے پر مسلم دنیا اور افریقی ممالک کے طلبہ کے لیے معقول وظائف کا اہتمام کرتے ہوئے ترکی کی جامعات کے دروازے کھول دئیے اس پالیسی کی وجہ سے افریقی اور مسلم ممالک کے لاکھوں طلبہ استفادہ کررہے ہیں،لیکن بدقسمتی سے پاکستان سے ابھی تک ایک محدود تعداد استفادہ کرسکی سفارت خانے سے معلوم ہوا کہ پاکستانی طلبہ کی تعداد پانچ سو سے ایک ہزار کے درمیان ہے۔
جبکہ بنگلہ دیش سے پانچ ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں ، ستر اور اسی کی دہائی میں ترکی سے طلبہ بڑے شوق سے پاکستان تعلیم حاصل کرنے آتے تھے دیگر تعلیمی اداروں بالخصوص اسلامی یونیورسٹی کے فاضلین کی ایک بڑی تعداد اس وقت ترکی کے اہم مناصب پر فائز ہیں، جو پاکستان کے ہمہ وقتی سفراء کا کردار ادا کر رہے ہیں اردگان کے قریبی رفقاء اور ایڈوائزر برہان کایا ترک ، علی شاہین،یٰسین اکتائے، عمر فاروق، محمود اوغلواور عاطف اذبک ان میں نمایاں ہیں اس طرح سید مودوی انسٹیٹیوٹ منصورہ ، دارالعلوم کراچی،اور جامعہ بنوری ٹاون کے فاضلین بھی ترکی کے علاوہ ساری مسلم دنیا میں پاکستان کے بہترین سفراء کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن 9/11 کے بعد دبائو میں مشرف حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات جو آج بھی جاری ہیں نے تعلیمی سفارت کاری کا نظام بری طرح مفلوج کر دیا ہے جسکے کے نتیجے میں اب بھارت نے پاکستان کے اس قدرتی حلیف حلقہ اثر کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے گونا گوں ترغیبات کا اہتمام کیا ہے پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ہم نے سفارت خانہ پاکستان اور ترکی کے حکام کو متوجہ کیا کہ کشمیری طلبہ کے لیے خصوصی رعائتوں کا اہتمام کیا جائے وہ دستیاب مواقع سے مستفید ہو سکیں اس طرح وسطی ایشیا ممالک جو در حقیقت وسیع ترکستان کا حصہ ہیں اور جو خطہ طویل عرصہ خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا ، بھی اردگان حکومت کی خصوصی ترجیح ہے ، تعلیمی معاشی اور ابلاغ ہر سطح پر ان خطوںکو مربوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ آذربائیجان کی حالیہ جنگ اور نکورہ قارہ باغ کی آزادی میں ترکی نے اہم کردار ادا کیا ہے، یہی وجہ ہے فتح کے موقع پر پورے ملک میں آذربائیجان کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ترکی کے جھنڈے لہرائے گئے ۔ (جاری)