جب کوئی فنکار صدیق بھی ہو تو اس فنکار کے فن سے لمحہ بہ لمحہ، تَہ بہ تَہ صداقت جھلکتی ہے اور فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ راول دیس کو بھی ایسا ہی صدیق فنکار نصیب ہوا جس کے جذبوں کی سچائی مصرعوں کی صورت میں غزل بن کر اُبھری اور کینوس پر قوسِ قزح کی مانند نمودار ہوئی۔ کسے معلوم تھا کہ راولپنڈی کے ’بسالی‘ نامی مضافات میں 6 جون 1939ء کو سچے اور طیب جذبوں کا خالق تولّد ہو گا۔ لال کڑتی، ٹاہلی موہری، ڈھیری حسن آباد، ٹینچ بھاٹہ اور گردونواح میں جہاں دیگر بڑے نام پیدا ہوئے، وہاں صدیق فنکار ایسی ہمہ جہت شخصیت اپنی مثال آپ ہے۔ قلم، کاغذ، برش، کینوس سے جس کا رشتہ کبھی نہ ٹُوٹا۔ شاعر، مصور، خطاط، نقاد، نثر نگار ایسی جہتوں کا امتزاج جب صدیق فنکار کے شخصی کینوس پر اُبھرا تو دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔ راول دیس میں شعروادب کے فروغ میں ’صدیق آرٹ سروس‘ ایک اہم اور بنیادی حوالہ ہے جہاں ملک بھر سے شعراوادبا تشریف لاتے۔ صدیق فنکار کے تراشے ہوئے دلکش اور اچھوتے فن پارے ہر آنے والے کا خیر مقدم کرتے۔ تصاویر گویا ہوتیں، رنگوں کو زباں ملتی اور اس طرح صدیق فنکار شہکار فن پاروں کے ذریعے حاضرین سے مخاطب ہوتا۔ ’صدیق آرٹ گیلری‘ میں تواتر کے ساتھ ہفتہ وار شعری محافل برپا ہوتیں، گویا دل کا بوجھ ہلکا کیا جاتا۔ متوسط طبقے سے تعلق ہونے کے باوصف صدیق فنکار نے ناداری و قلاشی کو بہت قریب سے دیکھا۔ کھیسے میں جو کچھ تھا، شعروادب کے نام کر دیا۔ گویا زندگی برائے ادب بِتا دی۔ انھوں نے کٹھن حالات میں ’ضوفشاں‘، ’ادب نامہ‘ اور ’صراطِ ادب‘ ایسے سہ ماہی رسائل کو جاری کیا اور انھیں تواتر سے شائع کیا۔سرُور انبالوی، رشید نثار، زہیر کنجاہی اور رشید ساقی، صدیق فنکار کے معاصرین ہو گزرے ہیں۔ ان کے مابین خوب ادبی محافل جمتیں۔ صدیق فنکار نعت، غزل، نظم، ماہیا جب کہ نثر میں افسانے کی طرف مائل رہے اور خوب جوہر دکھائے۔ ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے مشاعروں میں حصہ لیتے رہے اور ان کے متعدد نغمے بھی نشر ہوئے۔ علاوہ ازیں مختلف قومی اخبارات و رسائل کے لئے شعری محافل کی روداد اور ڈائری لکھتے رہے، جسے تاریخ بہ تاریخ اپنے ہاں محفوظ بھی کیا۔ مشاعروں و دیگرادبی تقریبات کی روداد حقیقت میںراول دیس کی ادبی تاریخ ہے جس میں ایک عہد محفوظ ہے۔ اس روداد کی تدوین کی جائے تو کئی کتب منصہ شہود پر آ سکتی ہیں۔ صدیق فنکار حلقہ ء اربابِ ذوق راولپنڈی کے جوائنٹ سیکرٹری بھی رہے اور تنقیدی نشستوں میں تسلسل کے ساتھ حصہ لیتے رہے۔ انھوں نے ’’بزمِ یارانِ فنون‘‘ کے نام سے ادبی تنظیم بھی تشکیل دی جس کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔اردو، پنجابی شاعری کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں ’بیت‘ بھی لکھے۔ ادبی مراسم کے باب میں محمد اکرم عزم، عزیز ملک، جمیل ملک، کرم حیدری، صادق نسیم ، ایوب محسن و دیگر سے ملاقاتیں رہیں۔ ’فن اور فنکار‘ کے نام سے معروف شاعر علی اصغر ثمر نے کتاب مرتب کی، جس میں صدیق فنکار کی شخصیت اور فن پر جید اہلِ قلم کی آرا کو یکجا کیا گیا ہے جو کہ صدیق فنکار کی تقریباََ پچاس سالہ ادبی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ’معطر معطر فضا‘ اور ’طرزِ کلام‘ ایسے جرائد میں صدیق فنکار کا بیشتر کلام شائع ہوا مگر کتابی صورت میں سامنے نہ آ سکا۔ ان کی شاعری و نثر کتاب کی صورت میں اشاعت کی منتظر ہے لیکن تمام تر سرکاری ادارے فنکار اور فن کو یکسر نظر انداز کر تے آ رہے ہیں۔ صدیق فنکار کے بقول انھوں نے اگست 2006ء کو چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان سے تحریری صورت میں درخواست کی کہ وہ بیماری و پِیری کا شکار ہیںباوجودیکہ کچھ ادبی و صحافتی منصوبوں کی تکمیل کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی مالی معاونت کی جائے۔ ایک سال بیت جانے پر جب انھوں نے درخواست بارے دریافت کیا تو جواب ملا کہ ’’ابھی درخواست نہیں دیکھی‘‘۔ ایسا شخص، بجائے کہ مکان تعمیر کرتا، اولاد کے لئے کچھ سرمایہ اکٹھا کرتا، اس نے تمام تر مال و متاع ادب کے فروغ میں صرف کر دیا۔ صد حیف کہ وہ صدیق فنکار آج سرکاری اداروں کی جانب ملتجی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور ادارہ فروغِ قومی زبان سمیت دیگر سرکاری اداروں کو چاہئے کہ جنابِ صدیق فنکار کی شاعری و نثر کو بصورتِ کتاب شائع کریں اور جامعات ان کی شخصیت و فن پر تحقیقی کام کی منظوری دیں۔ اس ضمن میں ان کے شاگردِ خاص محمد سلطان حرفی آرزو مند ہیں، اپنے مربی و رہبر کے لئے جن کی نم آنکھیں مقتدر حضرات سے پیہم سوال کناں ہیں۔ بلاشبہ صدیق فنکار ایسی نابغہء روزگار شخصیات راول دیس کی شناخت ہیں۔ مذکور کرب ناک صورتِ حال کے باوصف صدیق فنکار نے امید کی شمع کو بجھنے نہ دیا۔ وہ لمحہ بہ لمحہ پُرامید رہے۔ رجائیت کا پہلو ان کے اشعار میں دیکھئے:
؎امیدوں کی روشنیوں میں
شب کے لمحے کٹ جائیں گے
؎کب تک اندھیری رات میں بھٹکا کرے کوئی
خود کیوں نہ چاند بن کے ہی چمکا کرے کوئی
کمرشل آرٹ صدیق فنکار کا ذریعہء معاش تھا۔ اس طرح وہ لوگوں میں گھل مل گئے۔ زندگی کو بہت قریب سے دیکھا، جہاںغم، دکھ اور الم کی ایک داستان ہے اور کٹھن راہیں ہر ایک راہی کا استقبال کرتی ہیں۔ باوجودیکہ یہ آلام صدیق فنکار کی آنکھوں کو نم نہ کر سکے:
؎غم کے بحرِ بیکراں کی داستاں ہے زندگی
وقت کی پُرپیچ راہوں پر رواں ہے زندگی
؎جفائوں کے ہیں گہرے گھائو دل پر
مگر یہ آنکھ دیکھو، نم نہیں ہے
صدیق فنکار کی لفظیات قاری پر ہرگز گراں بار نہیںہوتیں۔ سادگی و سلاست ان کے شعری محاسن ہیں۔ اس پہ مستزاد خوبصورت تشبیہات ان کے کلام کا خاصا ہیں:
؎راہ میں سینکڑوںمشکلیں بھی جو ہوں
مشکلوں سے گزر امتحاں کی طرح
دُور جا کر بھی دل میں اسے یاد رکھ
ایک منزل کے سنگِ نشاں کی طرح
؎بج رہے ہیں شجر کے یوں پتے
جیسے تالی بجا رہی ہے ہوا
عمر بھر الفاظ کو بنانے،سنوارنے، نکھارنے، رنگوں سے ست رنگی دنیا آباد کرنے اور ان سے ہمکلام ہونے والے نیز تصویر کی زبان میںمخاطب ہونے والے صدیق فنکار کو ہدیہء تبریک پیش کرتا ہوں کہ ان کا نظریاتی کینوس وسیع تر جبکہ رنگ نمایا ں اور قرطاس پر نقوش گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ حرف حرف، لفظ لفظ، رنگ رنگ، نقش نقش صدیق فنکار کے فن کا اعتراف کر رہا ہے۔