ایک عرصے سے طعنے دیئے جارہے تھے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا ہے مگر 5 دسمبر کو ہونے والے این اے 133 کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے تمام سیاسی بقراط کے سارے تجزیئے ھوا میں اڑا دیئے ہیں ایک جیالے اسلم گل کو پڑنے والے ووٹ پنجاب میں جیالوں کی موجودگی کا پتہ دیے رہے ہیں ۔ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کو پڑنے والے ووٹ اور مد مقابل پیپلزپارٹی کو ملنے والے ووٹوں میں تھوڑا ہی فرق رہ گیا ہے ، غور طلب بات یہ کہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 80 ہزار ووٹ حاصل کیئے تھے جو ضمنی انتخاب میں 40 ہزار رہ گئے یعنی مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں 40 ہزار ووٹوں کی کمی ہوئی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے ووٹ میں ساڑھے 26 ہزار کا اضافہ ہوا ہے ۔ سابق صدر غلام اسحاق خان کا کہنا تھا کہ اگر سندھ اور پنجاب کی سرحدصادق آباد کے مقام پر بیریئر نہ لگائے جائیں تو محترمہ بینظیر بھٹو سندھ کے بعد پنجاب اور سرحد میں بھی فتح حاصل کرے گی ، کوئی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت یہ ہے کہ 2008 میں پیپلزپارٹی نے پلیٹ میں رکھ کر پنجاب کی حکومت مسلم لیگ ن کو دی تھی ، محترمہ بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کیلئے صرف اپنے لیئے محفوظ راستے کی بات
نہیں کی تھی بلکہ میان نواز شریف سمیت تمام سیاستدانوں کیلئے کی تھی ، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صرف محترمہ بینظیر بھٹو کو ہی محفوظ راستہ نہیں ملا ۔ میان نواز شریف تو پرویزمشرف سے سودے بازی کرکے خاندان اور ملازمین کے ساتھ رضاکارانہ طور پر 10 سال کیلئے ملک چھوڑ گئے تھے ۔ پرویزمشرف کے ایل ایف او جس کو اسمبلی سے پاس کرواکر آئین سے نتھی کرنے میں مولانا فضل الرحمن کا اہم کردار تھا اسکے بعد میان نواز شریف کا تیسری بار وزیراعظم بننا ناممکن تھا اگر نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو انہیں صدر کا احسان مند ہونا چاہیے تھا مگر مولا کائنات حضرت علیؓ کے اس قول کو سچا ہونا ہی تھا کہ جس پر احسان کرو ان کے شر سے بچو ۔ 2013 میں آر او انتخابات ہوئے منصوبے کے تحت پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ چرانا تھا کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت سے اٹھارویں آئینی ترمیم کا حساب چکانا تھا ۔ پیپلزپارٹی نے تحفظات کے ساتھ آر او انتخابات کے نتائج تسلیم کیئے تاکہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے 2014 جمہوریت ہچکولے کھانے لگی تو ایک بار پھر آصف علی زرداری نے جمہوریت کا دفاع کیا ، وزیراعظم میان نواز شریف جو ذہنی طور تاجر تھینے ایک طرف پارلیمنٹ کے اختیار خارجہ امور پر سودے بازی کردی دوسری طرف اپنے تجارتی مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے پاکستان کیازلی دشمن بھارت کو دل کے قریب رکھا ، رہی بات 2018 کے انتخابات کی تو مذکورہ انتخابات جمہوریت کا سفاکانہ قتل تھے ، جب آمروں کے کھیل احتساب جو میان نواز شریف کا مشغلہ بھی رہا تھا شروع ہوا تو میان صاحب ایک بار پھر بیماری کی بنیاد پر ملک چھوڑ گئے ۔ میان نواز شریف اپنے بیٹوں کے ساتھ لندن میں آرام سے
ہیں، میان شہباز شریف کا سارا خاندان بھی ملک سے باہر ہے ، اہل لاہور اب شعور حاصل کر چکے ، این اے 133 کے ضمنی انتخاب سے پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے ۔ این اے 133 میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی للکار کو ایک پیغام سمجھا جائے ۔ در اصل پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے کبھی اس کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ,
کبھی بندوق بردار کھڑے کئے گئے ، کبھی احتساب کی آڑ میں راستہ روکا گیا اس دوران پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف خوفناک میڈیا ٹرائل اور عدالتی نظام کا شرمناک اور وحشیانہ استعمال کیا گیا ۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے اس بار کھل کر میدان میں آئے کیوں کہ ان کا سیاسی وارث آصف علی زرداری لاھور میں ان کے درمیان تھے۔ اب مقابلہ آیندہ انتخابات میں ہوگا ۔ این اے 133 کے انتخاب میں ثابت ہوا کہ جیت کے لیئے تھوڑا فرق رہ گیا ہے جب میدان سجے گا تو جیالے کھیلیں گے بہت خوب کھیلیں گے ۔
پنجاب میں جیالوں کی پہلی للکار
Dec 11, 2021