کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان کی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹریز انتہائی تشویشناک ملکہ اقتصادی و معاشی حالات کے باعث پاکستان کی تاریخ میں خام مال کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے باعث مہنگی ترین مینوفیکچرنگ کی لاگت کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ایکسپورٹ ناقابل عمل ہو چکی ہے ۔انتہائی ناسازگار حالات اور موجودہ کمزور معاشی و اقتصادی منظرنامہ میں ملک بھر میں ایکسپورٹرز صنعت کر چلانے اور برآمدات کرنے کے قابل نہیں رہے۔ مہنگائی 31 فیصد کی ریکارڈسطح کو چھو رہی ہے، پالیسی ڈسکاؤنٹ ریٹ 16 فیصد، ایکسپورٹ فنانسنگ کی شرح تقریبا ً11 فیصد، برآمدی صنعتوں کے لیے توانائی کا بنیادی ذریعہ گیس دستیاب نہیں، ٹیکسٹائل پالیسی کے تحت ڈی ایل ٹی ایل معطل، سیلز ٹیکس ریفنڈز میں ضرورت سے زیادہ تاخیر سے لیکویڈیٹی بحران میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے خام مال اور مشینری کی درآمد پر بھی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں جس سے کاروبار میں مزید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین اور ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل فورم کے چیف کوآرڈینیٹر محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو قومی مفاد میں موجود انتہائی نازک معاشی واقتصادی صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور فوری طور پر پاکستان کے برآمد کنندگان کے آئینی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی سرمایہ کاری کو بھی تحفظ فراہم کرنا چاہئے تاکہ صنعتیں بند نہ ہوں اور ایکسپورٹ میںکمی نہ آئے اور عالمی سطح پر پاکستان کے حقیقی اور اور مثبت امیج کوپروان چڑھانا چاہئے۔ بصورت دیگر، اگر ایسی تشویش ناک صورت حال رہی تو ملک بھر میں برآمدات کی بندش، بڑے پیمانے پر چھانٹیوں اور قومی خزانے میں زبردست گراوٹ کے ساتھ ساتھ برآمدات میں مزید نمایاں کمی کی وجہ سے ملک کو شدید بدامنی ، افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عناصر کے معیشت مخالف بیانات اورسیاسی مقاصد کیلئے طے شدہ شور و غوغا نے بھی برآمد کنندگان کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ایک انتہائی تاریک اور سیاہ تصویر پیش کر رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے جس سے غیر ملکی خریداروں کی نظروں میں پاکستانی برآمد کنندگان کے ساتھ ڈیل کرنے کا انتہائی منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ملک پاکستان کی تاریخ کے سب سے تباہ کن معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور تمام سیاسی اور غیر سیاسی عناصر اس مالیاتی بحران کے یکساں ذمہ دار ہیں اور وہ قومی مفاد میں معیشت کی بحالی کی اپنی ذمہ داری سے انحراف نہیں کر سکتے۔ موجودہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کی سنجیدگی کا فقدان مکمل معاشی سبوتاژ کے مترادف ہوگا۔برآمدات پر مبنی صنعتیں صنعت کو چلانے اور ایکسپورٹ مصنوعات کی تیاری کے لئے مہنگے صنعتی خام مال خرید رہی ہیں جس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ایکسپورٹرز صنعت کو چلانے اور برآمد کرنے کی اہلیت کو کھو رہے ہیں کیونکہ تشویشناک حد تک مینوفیکچرنگ کی لاگت میں اضافے کے باعث صنعتوں کا چلنا تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔ ٹیکسٹائل برآمد کنندگان بنیادی خام مال یارن پیشگی خریدتے ہیں جس کے تحت سیلز ٹیکس ادا کیا جاتا ہے،سیلز ٹیکس ریفنڈز اور ریبیٹس میں اکثر تاخیر ہوتی ہے۔جاوید بلوانی نے کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت برآمد کنندگان سے سیلز ٹیکس وصول کرتی ہے اور اس رقم کو حکومت تقریباً چھ ماہ تک استعمال کر تی ہے۔ سیلز ٹیکس ریفنڈز میں اکثر سیلز ٹیکس رولز کے برخلاف تاخیر ہوتی ہے اور ایف بی آر نے سیلز ٹیکس ایکٹ اور رولز کے مطابق تاخیری رقم پر کبھی کوئی سود نہیں دیا۔جاوید بلوانی نے مزید کہا کہ سوتی دھاگے اور کاٹن کی تجارت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے،مقامی ٹیکسوں اور لیویز پر ڈیوٹی ڈرا بیک (ڈی ایل ٹی ایل) جو کہ برآمد کنندگان کی سہولت کے لیے ٹیکسٹائل پالیسی کا ایک فعال جزو اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے پیداواری لاگت کا ایک لازمی جزو ہے کو بھی پہلے معطل کیا جا چکا ہے۔ ڈبلیو ٹی او کی ایز آف ڈوئنگ بزنس رینکنگ 2020 کے مطابق پاکستان 108ویں نمبر پر تھا جومزکورہ درجہ بندی میں مزید نیچے گر گیا ہے۔ ایشیا میں ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ ممالک کے لیے عالمی سروے کے مطابق، سستے مینوفیکچرنگ لاگت کے لیے، فی الحال، بھارت، چین اور ویت نام بالترتیب ٹاپ تین پوزیشنوں پر ہیں۔ بنگلہ دیش رینکنگ میں 6 ویں اور سری لنکا 10 ویں نمبر پر ہے جبکہ مقامی کرنسی اور اقتصادی اشاریوں میں عدم استحکام کے درمیان مینوفیکچرنگ کی روزانہ بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے پاکستان ایسے حالیہ سروے میں غائب ہے۔ برآمدات کے لیے سامان کی تیاری کے مقصد کے لیے خام مال کی درآمد پر پابندیاں اب بھی برقرار ہیں۔لیکویڈیٹی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور برآمد کنندگان کو درپیش مسائل نے ان کی شکایات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے اور برآمدی صنعتوں کو چلانے کے لیے ان کی عملداری کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ ٹیکسٹائل برآمد کنندگان خطے میں یا کسی اور جگہ کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ برآمدی صنعتوں کی تیاری کی موجودہ لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے پاکستانی برآمد کنندگان مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ برآمدی صنعتیں معمولی منافع کے بغیر کیسے چل سکتی ہیں؟ کیا کوئی بھی کاروبار منافع کے بغیر چل سکتا ہے؟ عالمی منڈی میں لاگت کے لحاظ سے بہت فرق ہے کیونکہ دیگر علاقائی ممالک پاکستان کے مقابلے میں سستا فروخت کر رہے ہیں۔ صرف غیر ملکی خریداروں کے ساتھ اپنے کاروباری تعلقات کو محفوظ رکھنے اور برقرار رکھنے کے لیے، ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان اپنا مال غیر ملکی خریداوارں کو بلا منافع صرف لاگت کی بنیاد پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ہر آنے والے دن برآمد کنندگان کوصنعت کو چلانے اور کاروبار کی بقاء کی خاطر چیلنجز کا سامنا ہے اورصورتحال کی سنگینی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جنگی بنیادوں پر ''ایکسپورٹ اورینٹڈ انڈسٹریز'' کی حمایت کرے اور برآمد کنندگان کے لیے امریکی ڈالر کی شرح مبادلہ کا تعین کرے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات کے کاروبار کی بقاء اوراس کو جاری رکھنے کے لیے حکومت ایکسپورٹرز اور زر ترسیلات پاکستان بھیجنے والے شہریوں کے اعتمادکو بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈالر کے تبادلے میں مارجن کی خصوصی اضافی پانچ فیصد شرح کی منظوری دے، ملک کے لیے زرمبادلہ مختلف ممالک میں برآمدات، درآمدات کے لیے زر مبادلہ کی شرح یکساں نہیں ہے،برآمد کنندگان کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ درآمد کنندگان کے لیے فاریکس کی شرح عام طور پر برآمد سے ایک امریکی ڈالر زیادہ ہوتی ہے۔ صنعتی خام مال اور ضروری اشیاء کی درآمد کے نرخ نارمل ہونے چاہئیں جبکہ لگژری اور تمام غیر ضروری اشیاء کی درآمد کی شرح نسبتاً زیادہ ہونی چاہیے۔ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سیاسی چپقلش کا خمیازہ صنعتیں اور کاروبار کیوں برداشت کریں؟ وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس انتہائی گھمبیر صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور برآمد کنندگان کو ریلیف فراہم کریں جو ملکی معیشت کا محرک ہیں۔